رحیم اللہ یوسفزئی
تحریر:ریاض یوسفزئی
ایک عظیم انسان دوست ،رحیم اللہ یوسفزئی کی دوسری برسی آج 9 ستمبر 2023 کو منائی جارہی ہے۔ ایسے عظیم انسان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے الفاظ کا چناؤ مشکل ہو تا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ ان کی پر وقار شخصیت اور پرکشش دراز قد قامت، زرخیز ذہن کے ساتھ ساتھ گہرے مشاہدے اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے کے عظیم جذ بے سے سر شار تمام رعنائیو ں کا مرقع تھی۔ عوام کی خدمت ان کا محبوب مشن تھا اُنہوں نے ہمیشہ لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرنے کی عمر بھر جستجو کی اور مختلف طریقوں سے اسمیں اپنا حصہ ڈالا۔

گو کہ ان کی بامقصد زندگی کے ہر پہلو کو ایک مضمون میں سمونا ممکن نہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ عالمی شہرت کے حامل بااعتماد صحافی تھے اور کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کر چکے تھے۔لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ علاقے کے لوگ انہیں ایک سماجی کارکن کے طور پر زیادہ بہتر جانتے تھے۔ اس کی سادہ وجہ یہ تھی کہ وہ ہر وقت علاقے کے غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل رہے اور ان کی مدد کا موقع کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ ان عوامل کو مد نظر رکھ کر اس سال ان کی دوسری برسی کے موقع پر ان کی زندگی کے صرف ایک پہلو یعنی ایک عظیم "سماجی کارکن” کے طور پر اور اسی میدان میں ان کی نمایاں خدمات کو اُجاگر کیا جارہا ہے۔

ا نہوں نے اپنی گوں ناگوں مصروفیات میں سے وقت نکالا اور معاشرے کے غریب طبقے کی اپنی استطاعت کے مطابق توقعات سے بڑھ کر خدمت کی، اس مقصد کے لیے وہ بہت سی فلاحی تنظیموں، مخیر حضرات اور ذاتی دوستوں سے رابطے میں رہے اور ان کی وسا طت سے غریب اور نادار لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ساری زندگی صحافتی سرگرمیوں یا سماجی کاموں کے ذریعے غریبوں کی مدد کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ چوبیس گھنٹے صحافتی سرگرمیوں اور کمزور صحت، متعدد بیماریوں کے باوجود، سماجی شعبے میں ان کے کام کی رفتار حیرت انگیز تھی۔ لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ ان کی مدد کرتا ہے ” ضرورت مند اور مظلوم لوگوں کی مدد کرنے سے مجھے بے پناہ خوشی اور ذہنی سکون ملتا ہے۔” یقین جانیئے میری زندگی کی خوشی کا سب سے بڑا لمحہ وہ ہوتا ہے جب میں غریبوں کے ساتھ گھل مل کر ان کے مسائل حل کرتا ہوں” یہ کلمات ا نہوں نے اپنی زندگی میں کئی مواقع پر ادا کئے ا ور میدان میں عملی اقدامات سے ان کو ثابت بھی کیا۔
بنی نوع انساں کی بے لوث خدمت کا یہ جذبہ انہیں اپنے مرحوم والد (ر) صوبیدار آدم خان سے وراثت میں ملا تھا جو اپنے وقت کے ایک عظیم سماجی کارکن تھے اور انہوں نے اپنی محنت سے علاقے میں عوامی خدمت پر مبنی بہت سے بڑے منصوبے مکمل کرائے تھے۔ درحقیقتاً ان کے والد علاقے میں اس طرح کی سماجی سرگرمیوں کے سرخیل تھے۔ اگرچہ ان کے والد کو اسوقت بہت سے چیلنجز اور مشکلات کا سامنا تھا تاہم انہوں نے اپنے مشن کو جاری رکھا اور آج تمام لوگ انہیں دعاؤں میں اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ بلاشبہ علاقہ کا ہر ایک فرد باپ بیٹے کی بے لوث سماجی خدمات کا معترف ہیں۔ضرب ا لمثل مشہور ہے کہ عقاب کے گھونسلے سے عقاب کا بچہ ہی نکلتاہے،یوسف زئی خاندان کے معاملے میں بھی یہ سچ ثابت ہوا اور اب انسانیت کی خدمت کا جذبہ توسیع شدہ امیر خیل کی تیسری نسل میں منتقل ہو گیا ہے،

یوسف زئی خاندان کے چشم چراغ اور رحیم اللہ یوسفزئی کے بڑے فرزند ارشد محمود یوسفزئی نے یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر لے لی ہے۔ اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ارشد محمود نے علاقے کی غریب کمیونٹی کی خدمت کو اپنا مشن بنایا ہے اور یہ تمام صلاحیتیں اُن میں بدرجہ ا تم موجود ہیں۔ اب عظیم مشن کے حقیقی معمار اور عظیم سماجی کارکن رحیم اللہ یوسفزئی کی سماجی خدمات پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔

انہوں نے سماجی خدمات کے شعبے کو نئی جہتیں دیں اور اپنی زندگی کے دوران غریب یتیم لڑکوں اور لڑکیوں کی 99 اجتماعی شادیاں کرائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک جوڑے کو ایک لاکھ روپے جہیز کا سامان بھی دیا۔ اسی طرح وہ اخوت فاﺅنڈیشن لاہور سے علاقے کے معذور افراد کے لیے 116 وہیل چیئرز حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ 20 مزید وہیل چیئرز پائپ لائن میں ہیں جو ستمبر میں مل جائیں گی۔ انہوں نے جاپان حکومت کی مدد سے 8ملین روپے کی لاگت سے غریب اور نادار خواتین کے لئے ووکیشنل سنٹر قائم کیا اس سنٹر میں اب تک 100 سے زائد خواتین کو تربیت دی جا چکی ہے جو اب اس سنٹر میں حا صل کردہ تر بیت کا بہترین استعمال کر کے اپنے اپنے خاندانوں کے لیے روزی روٹی کما رہی ہیں۔
مزید یہ کہ اُنہوں نے اس وقت کے حکومتی عہدیداروں کی مدد سے گرڈ سٹیشن قائم کیا، کاٹلنگ بونیر روڈ (دونوں کی مالیت کروڑوں روپے ہے ) بھی تعمیر کرائی، کاٹلنگ واپڈا سب ڈویژن اور علاقے میں بہت سے ٹیوب ویلوں کی منظوری دلوائی۔ وہ ہر سال اسکول جانے والے بچوں کے لیے موسم سرما کی کٹس کا بندوبست کرتے تھے اور غریب طلبہ میں تقسیم کرتے تھے۔ جوتوں کے 8350 جوڑے، ہزاروں موزے وغیرہ، باتھ رومز، پینے کے پانی کی سہولت، بجلی کے پنکھے نیز کرسیاں اور میزیں تک دلوائیں۔
اسی طرح وہ ہر سال بدر اور شموزئی کے سکولوں میں یوم والدین کا اہتمام کرتے تھے اور اس کے تمام اخراجات اپنی جیب سے برداشت کرتے اور مختلف کیٹیگریز میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلباءکو انعامات سے نوازتے تھے۔ انہوں نے علاقے میں غریب اور نادار لو گوں کے لئے مختلف طبی کیمپوں کا اہتمام کیا جس میں 150 سے زائد اپر یشنز کرائے گئے۔ ان کیمپوں میں معروف سپیشلسٹ ڈاکٹروں نے مریضوں کا علاج بذات خود کیا۔اسی طرح انہوں نے فرانس، جرمنی اور اٹلی کی حکومتوں کی جانب سے ضرورت مند غریبوں کے لیے آنکھوں کے چشموں کا بھی انتظام کیا۔
ہر سال وہ بڑے پیمانے پر غریب ضرورت مندوں میں رمضان پیکج تقسیم کرتے تھے۔ انہوں نے وزیراعظم سے 21 دیہات کو سوئی گیس کی فراہمی کی منظوری بھی دلوائی جس پر کام جاری ہے اور بہت جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے بہت سی نئی تعمیر شدہ مساجد کی مالی معاونت بھی کی اور یتیموں، بیواؤں، معذوروں کو حسب توفیق خفیہ عطیات دینے کے ساتھ ساتھ کئی ہزار بے روزگار جوانوں کو مختلف محکموں میں بھرتی کرنے میں بھی مدد دی۔ انہوں نے مشہور علاقائی کھیل "مخہ” کو بھی دوبارہ بھر پور انداز میں متعارف کرایا اور ہر سال سرکاری عہدیداروں اور معززین کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرکے اس کے ٹورنامنٹس کا اہتمام کرایا۔
”زندگی گزارنے کا بہترین راز“ اسی میں ہے کہ جب کوئی کسی بڑے کاز کے لیے خدمت کرتا ہے تو اسے زندگی کا ایک گہر ا مفہوم ملتا ہے اور یہی چیز اصل زندگی کو مزید تقویت اورمعنی دیتی ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے بے پناہ شہرت اور نام کے باوجود انتہائی سادہ زندگی گزاری اور اپنے سماجی کاموں کی بدولت اس میدان میں بے مثال کامیابیوں سے لوگوں کے دل جیتے۔ ان کی دوسری برسی کے موقع پر ان کی شاندار خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے، شمع ویلفیئر آرگنائزیشن (جس کا قیام انہوں نے اپنی زندگی میں کیا تھا) نے انتہائی غریب خاندانوں کے لیے 10 اجتماعی شادیوں کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یقینا یہ رحیم اللہ یوسفزئی کی روح کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے جنہوں نے انسانیت کی خدمت کرنا پسند کیا۔
قانون قدرت ہے کہ ہم دنیا میں ڈالی گئی توانائی واپس حاصل کرتے ہیں۔ ہم اس میں جو حصہ ڈالتے ہیں وہ ہماری زندگی کو حقیقی معنی دیتا ہے۔ انہوں نے اپنا وقت، تجربہ، پیسہ اور ہنر غریب لوگوں کی مدد کے لیے وقف کیا اور ایک بہتر معاشرہ بنانے کی پوری کوشش کی۔ مختصراً وہ بائیزئی کے علاقے کے ایک ”عظیم خدائی خدمتگار “تھے اور غریبوں کے لیے اس قدر لگن اور دیانتداری سے کام کرتے تھے کہ وہ اس عمل میں ایک بہترین استعارہ بن گئے ہیں۔
اگرچہ ارشد محمود اتنی بڑی ذمہ داری کو سنبھالنے کے لیے کمسن ہیں لیکن جب ارادے پختہ ہوں اور پسے ہوئے طبقے کی خدمت کے لیے دل تڑ پتا ہو تو مطلوبہ اہداف حاصل ہوہی جاتے ہیں۔ امیر خیل یوسفزئی خاندان تمام دوستوں اور خیر خواہوں کا بے حد شکر گزار ہے اس لیے کہ انسانیت کی خدمت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ علاقے کے عوام کو رحیم اللہ یوسفزئی کی سماجی بہبود کے کارناموں پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ تمام اچھے اعمال، جو انہوں نے اپنی زندگی میں کیے، ابد تک قائم رہیں گے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ رحیم اللہ یوسفزئی کی یادعلاقے کے عوام کو بہت شدت سے ستاتی ہے۔ آپ کے تمام رشتہ دار اور احباب آپ سے والہانہ پیار و محبت کو اپنی اپنی زندگیوں کا سرمایہ افتخار اور قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں۔ خدا کی اُن پہ رحمت ہو اور اُنہیں محمد کی شفاعت نصیب ہو۔
گویاد ستاتی ہے تیری پھر بھی دُعا ہے
دن ایسا نہ آئے کہ تیری یاد نہ آئے








