03 فروری کو پیدا ہونے والی چند مشہور شخصیات
1905ءجدوجہد آزادی کے نامور رہنما نواب بہادر یار جنگ کا اصل نام محمد بہادر خان تھا اور وہ 3 فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔ 1927ء میں انہوں نے مجلس تبلیغ اسلام کے نام سے ایک جماعت قائم کی بعدازاں وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک اور مجلس اتحاد المسلمین کے سرگرم کارکن رہے۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم رہنمائوں میں شامل تھے اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ مارچ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جس اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اس میں آپ نے بڑی معرکہ آرا تقریر کی تھی۔ نواب بہادر یارجنگ آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ کے بانی اور صدر بھی تھے۔ آپ کو قائد ملت اور لسان الامت کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔ 25 جون 1944ء نواب بہادر یار جنگ حیدر آباد دکن میں وفات پا گئے۔
1936ء رابرٹ بیڈیلی سمپسن بمعروف باب سمپسن، آسٹریلوی کرکٹر اور کوچ
1938ء وحیدہ رحمان ، بھارتی اداکارہ
1936ءاسیر عابد کا اصل نام غلام رسول تھا۔غلام رسول اسیر عابد کی پیدائش علی پور چٹھہ گوجرانوالہ میں ہوئی پاکستانی معروف شاعر مترجم تھے، جو اردو، پنجابی اور فارسی میں شاعری لکھتے تھے۔ رئیس الترجمین اسیر عابد نہ صرف شاعر اور نثر نگار تھے بلکہ وہ آلات موسیقی پر بھی مضبوط گرفت رکھتے تھے۔ جنھوں نے شہر آفاق دیوان غالب ۔ ڈاکٹر محمد اقبال کا مجموعہ بال جبریل (جبریل اڈاری)، قیصدہ بردہ شریف کا پنجابی میں منظوم ترجمہ کیا، نیز قصیدہ بردہ شریف کا اردو منظوم ترجمہ کیا۔ پنجابی کی شہر آفاق تصنیف ہیر وارث شاہ کا اردو منظوم ترجمہ کیا۔ کلام بابا بلھے شاہ کو اردو نثر کا پہناوا پہنایا۔ ان کی اردو شاعری کی تصنیف "صحرا عبور کرنا ہے” بھی شائع ہوچکی ہیں
1940ءکشور ناہید پاکستان کی ادبی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ وہ ایک حساس دل کی ملک ہیں ملک کے سیاسی اور سماجی حالات پر اُن کی گہری نظر ہے، ایک عرصے سے وہ روزنامہ جنگ میں کالم لکھ رہی ہیں، کشور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر کام کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی سال تک ادبی جریدے ماہِ نو کی ادارت کے فرائض بخوبی انجام دیتی رہی ہیں۔ آج کل وہ اسلام آباد میں سکونت پزیر ہیں
1948ء کارلس بیلو ، نوبل امن انعام (1996ء) یافتہ مشرقی تیمورین مسیحی رہنما ، انھوں نے مشرقی تیمور کے تنازعے کو پر امن طریقے سے حل کرنے پر کام کیا۔
1950ء مورگن فیئر چائلڈ، امریکی اداکارہ
1951ء بلیز کمپاوغے ، برکینا فاسو کے سیاست دان ، (15 اکتوبر 1987ء تا 31 اکتوبر 2014ء) چھٹے صدر برکینا فاسو اور (8 جون 1998ء تا 12 جولائی 1999ء) چیئر پرسن آف دی آرگنائزیشن آف افریقن یونٹی
1956ء احمد حاطب صدیقی ، پاکستانی کالم نگار، مزاح نگار، شاعر اور بچوں کے ادیب ہیں، بچوں کے لئے شاعری بھی کرتے ہیں، ان کی نظم ” یہ بات سمجھ میں آئی نہیں” بہت مشہور ہوئی ہے۔ حاطب صدیقی روزنامہ جسارت، کراچی میں ابو نثر کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔
1958ء حاصل خان بزنجو ، نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر اور 12 مارچ 2015ء سے ایوان بالا (سینٹ ) کے رکن ہیں ان کا شمار بلوچستان کے معتبر سیاستدانوں میں ہوتا ہے ۔میر حاصل بزنجونے 1958ءمیں ضلع خضدار کی تحصیل نال میں بلوچستان کے سابق گورنر میرغوث بخش بزنجو کے گھر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مڈل ہائیاسکول نال سے حاصل کی۔ جب ان کے والد کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا، اس وقت وہ ساتویں جماعت میں تھے۔ ان کا خاندان کوئٹہ آگیا، جہاں انھوں نے اسلامیہ ہائیاسکول میں داخلہ لے لیا۔ 1977ءمیں میٹرک کرنے کے بعد 1979ءمیں گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے انٹر کیا۔80 ءکی دہائی میں کراچی چلے گئے جہاں جامعہ کراچی سے آنرز کرنے کے بعد فلسفے میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔8 اگست1988ءکو شادی ہوئی، ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ ان کے تین بھائی تھےحاصل بزنجو کے آباؤ اجداد سات پشتون سے بلوچستان میں آباد ہیں۔ ان کے داد فقیر محمد بزنجو، محراب خان کے زمانے میں (مکران ڈویژن میں ) 40سال تک خان آف قلات کے نائب رہے (اس زمانے میں نائب کی حیثیت گورنر کے مساوی ہوتی تھی )۔حاصل بزنجو نے 70ء کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔1972ءمیں بی ایس او نال زون کے صدر اوربعدمیں تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1987ءمیں بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے اتحاد کے خلاف تنظیم سے علیحدگی اختیار کی۔ حاصل بزنجو جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف تشکیل دیے جانے والے قوم پرست اور ترقی پسند طلباءکے اتحاد یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔1985ء تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی ) میں متحرک رہے۔ 1988ءمیں پاکستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور نال سے انتخابات میں حصہ لیا۔1989ءمیں والد کی وفات کے بعد پاکستان نیشنل پارٹی کی سرگرمیوں میں زیادہ فعال ہو گئے جس کی قیادت ان کے بڑے بھائی میر بیزن بزنجو نے سنبھالی۔ بیزن بزنجو 1990ءکے عام انتخابات قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے بعد ازاں ایک نشست چھوڑ دی جس پر حاصل بزنجو نے انتخاب لڑا اور پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔1996ءمیں حاصل بزنجو پاکستان نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔1997ءکے عام انتخابات میں وہ دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت کے خلاف تقریر کرنے کی پاداش میں انھیں کچھ عرصہ قید بھی کاٹنی پڑی۔ 2002ءمیں ان کی پارٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کا الحاق ہوا اور نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس کے چیف آرگنائزر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور ڈپٹی آرگنائزر حاصل بزنجو منتخب ہوئے۔ پارٹی کے پہلے کنونشن میں جنرل سیکرٹری اور دوسرے کنونشن میں سینئر نائب صدر منتخب ہوئے۔2009ءمیں بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ان کی جماعت نیشنل پارٹی نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے فروری2008ءکے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی مدد سے بلوچستان میں نیشنل پارٹی اقتدار میں آئی اور یوں اس کی قیادت نے قومی توجہ حاصل کی، میر حاصل بزنجو 2014ء میں اس کے صدر بنے۔2013ء سے 2018ء تک ان کی جماعت نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی بلوچستان میں مشترکہ حکومت رہی، حاصل بزنجو 2019 میں چئیرمین سینٹ کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار تھے۔20 اگست 2020ء کو وفات پاگئے، وہ کینسر اور بواسیر کے امراض میں مبتلا تھے۔ کراچی کے نجی ہسپتال میں گذشتہ روز میر حاصل کی کیمیو تھراپی کی گئی تھی، جمعرات کی صبح دوبارہ طبیعت خراب ہوئی اور وہ شام کو انتقال کر گئے۔ان کی میت کراچی سے ان کے آبائی علاقے نال منتقل کی گئی، جہاں جمعے کی شام پانچ بجے نماز جنازہ ادا کی گئی۔
1961ء صبا محمود ، پاکستانی نژاد امریکی ماہر بشریات و استاد جامعہ، جو جامعہ کیلیفورنیا، برکلی میں بشریات کی پروفیسر رہیں۔ برکلی میں، صبا مرکز برائے مطالعہ مشرق وسطی، ادارہ برائے مطالعہ جنوبی ایشیا اور تنقیدی نظریے کا پروگرام سے بھی منسلک تھی۔ ان کے علمی کام کی وجہ سے بشریات اور سیاسی نظریہ کے مابین مباحثہ شروع ہوا، اس کام اور علمی مباحثے کا مرکزی موضوع مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے مسلم اکثریت کے معاشرے ہیں۔ صبا محمود نے اخلاقیات اور سیاست، مذہب اور سیکولرزم، آزادی و غلام باشی اور علت و صورت گری کے درمیان میں تعلقات پر نظر ثانی کرنے کے لئے اہم نظریاتی کام کئے ۔ (وفات: 10 مارچ 2018ء)
1963ء ایسابیلا لوون ، سویڈنی صحافی و سیاست دان ۔ (1 جولائی 2009ء تا 3 اکتوبر 2014ء) رکن یورپی پارلیمان یورپی پارلیمان میں ان کا کام صنعت ماہی گیری کے سوالات کا جوابات دینا تھا، 25 مئی 2016ء سے نائب وزیر اعظم سوئیڈن ہیں۔ ایسابیلا کو صحافت کے میدان میں صنعت ماہی گیری کے متعلق کام کرنے خصوصاً مقالات لکھنے پر اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔
1963ء رگھو رام راجن، بھارتی ماہر اقتصادیات
1963ء رگھو رام گووند راجن بمعروف رگھو رام راجن، بھارتی ماہر اقتصادیات ، پروفیسر، بینکار ، (4 ستمبر 2013ء تا 4 ستمبر 2016ء) 23ویں گورنر ریزرو بینک آف انڈیا
1966ءرضیہ سلطانہ ، ایک ہندوستانی سیاست دان ہیں اور حکومت پنجاب میں کابینہ کی وزیر تھیں۔ انھوں نے پنجاب قانون ساز اسمبلی میں مالیرکوٹلہ کی نمائندگی کی جس کی وہ واحد مسلم رکن تھیں۔ وہ تین بار 2002ء، 2007ء اور 2017ء میں پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔سلطانہ مالیرکوٹلہ کے ایک متوسط طبقے کے گجر مسلم گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کی شادی آئی پی ایس افسر محمد مصطفیٰ سے ہوئی ہے جو پنجاب کے سابق ڈی جی پی تھے۔ جوڑے کے دو بچے ہیں۔ 2000ء کے اوائل میں، سلطانہ نے پنجاب میں فعال سیاست میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے ٹکٹ پر 2002ء میں مالیرکوٹلہ سے پنجاب اسمبلی کے لیے الیکشن لڑا اور جیتا۔ سلطانہ کو 2007ء میں دوسری بار ریاستی مقننہ میں ووٹ دیا گیا تھا۔ 2012ء کے پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں، وہ ایف نصارہ خاتون (فرزانہ عالم) سے ہار گئیں۔ سلطانہ نے 2017 ءکے پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں یہ سیٹ دوبارہ حاصل کی جب اس نے اپنے ہی بھائی محمد ارشد کو عام آدمی پارٹی سے شکست دی۔ سلطانہ انڈین نیشنل کانگریس کی کابینہ کی وزیر ہیں۔ انھوں نے 28 ستمبر 2021ء کو نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ یکجہتی کے لیے پنجاب حکومت میں کابینہ کے وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
1970ءاوفیسا فرانسس جونیئر ٹونیو نیوزی لینڈ کی سابق رگبی یونین کی کھلاڑی اور ساموا کرکٹ کھلاڑی ہے۔ ہاف بیک ، ٹونیو نے صوبائی سطح پر ویلنگٹن اور آکلینڈ اور سپر رگبی میں Blues اور Hurricanes نمائندگی کی۔ ساموآ کے والدین میں سے، تونو نے 14 میچ کھیلے جن میں 1992ء اور 1993ء میں ساموآ کے لیے پانچ ٹیسٹ شامل تھے۔ بعد میں وہ 1996ء سے 1998ء تک نیوزی لینڈ کی قومی ٹیم ، آل بلیک کے رکن رہے۔ اس نے تمام سیاہ فاموں کے لیے 8 میچ کھیلے جن میں 5بین الاقوامی بھی شامل ہیں۔ 2013ء میں وہ آکلینڈ کرکٹ سوسائٹی پریمیئر مینز کرکٹ ٹیم کے رکن تھے
1978ءامل کلونی ایک لبنانی نژاد برطانوی بیرسٹر ہے۔ امل کلونی کے مؤکلوں میں فلپائنی اور امریکی صحافیوں کے علاوہ مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید ; جولین اسانج ، وکی لیکس کے بانی؛ یوکرین کی سابق وزیر اعظم یولیا تیموشینکو ; مصری نژاد کینیڈین صحافی محمد فہمی ; ، عراقی کارکن نادیہ مراد اور ماریا ریسا شامل ہیں
1981ءحسن نیازی ایک پاکستانی فلم اور ٹیلی ویژن اداکار ہے۔ نیازی 3 فروری 1981 کو لاہور، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ اسکول اور کالج کی تعلیم لاہور سے مکمل کی اور بطور اداکار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔نیازی کا پہلا کام2007 میں فیور میں عرفان کا مختصر کردار تھا اور اس کے بعد رام چند پاکستانی اور مالک میں اداکاری کی۔2019 میں، اس نے شیردل میں ارون ویرانی کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم نیازی کی پہلی بڑی باکس آفس پر کامیابی تھی اور اس نے کافی منافع کمائے۔
1982ء برجٹ ریگن ، امریکی فلمی اداکارہ
1983ء عادل خان ، پاکستانی نژاد نارویجن اداکار، گلوکار اور رقاص
1992ءرابی پیرزادہ ایک پاکستانی سابقہ گلوکارہ و اداکارہ ہیں۔ رابی پیرزادہ نے گلوکاری کا آغاز 2005ء میں گانا "دادی کڑی” سے کیا
1993ء۔آصفہ زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی گھرانے کا حصہ ہیں۔وہ 3 فروری1993کو پیدا ہوئیں۔وہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔آصفہ بھٹو ،بلاول زرداری اور بختاور زرداری کی چھوٹی بہن ہیں۔وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ایرانی نژاد نصرت بھٹو کی نواسی اور شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی بھانجی ہیں۔آصفہ زرداری، حاکم علی زرداری کی پوتی اورپاکستان قومی اسمبلی کی رکن عذرا فضل پیچوہو اور فریال تالپور کی بھتیجی ہیں۔ ان کا نام ان کے والد آصف علی زرداری نے رکھا تھا جبکہ ان کی والدہ بینظیر بھٹو اُن کا کوئی اور نام رکھنا چاہتی تھیں۔وہ اپنے والد کے سب سے قریب رہیں ،آصف علی زرداری کے جیل کے دنوں میں اور عدالتوں میں پیشی کے وقت بھی آصف علی زرداری کی گود میں ہمیشہ وہی نظر آتی تھیں۔آصفہ زرداری نے آکسفورڈ بروکس یونی ورسٹی سے سیاسیات اور سوشیالوجی میں بیچلر کیا۔جولائی 2016میں آصفہ زرداری نے گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈوپلمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری یونی ورسٹی کالج لندن سے حاصل کی۔اس حوالے سے لندن کالج میں منعقد تقریب میں ان کے والد آصف علی زرداری، ان کے بھائی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور ان کی بڑی بہن بختاور زرداری نے شرکت کی۔طالب علمی کے دور سے ہی انہوں نے مختلف سیاسی، سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا، انہوں نے جانوروں کے حقوق سے متعلق سرگرمیوں میں حصہ لیا اورپاکستان کو پولیو سے نجات دلانے کے لیے سب سے کم عمر پولیو سے محفوظ پاکستان کی سفیر منتخب ہوئی۔06 ستمبر 2013 کو آصفہ زرداری کا ووٹ سندھ کے ضلع ٹنڈوالہیار میں رجسٹرڈ کیا گیا۔قومی اسمبلی کے حلقے این اے223کی یونین کونسل جھنڈو مری میں یہ ووٹ رجسٹرڈ کیا گیا، اس موقع پر ان کی پھوپی فریال تالپور اور صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن بھی آصفہ زرداری کے ہمراہ تھے، اسی حلقے سے ان کی والدہ بےنظیر بھٹو دو بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں بہن بھائی کا ووٹ الگ الگ حلقوں میں درج ہے۔بلاول زرداری کا ووٹ نوڈیرو این اے 207 میں رجسٹرڈ ہے، این اے 207 ان کی والدہ بینظیر بھٹو کا آبائی حلقہ انتخاب رہا ہے موجودہ وقت یہاں سے ان کی پھوپھی فریال تالپور رکن قومی اسمبلی ہیں۔بختار بھٹو زرداری کا ووٹ نوابشاہ این اے 213 میں رجسٹرڈ ہے، این اے 213 کے اس حلقے سے ان کی پھوپھی عذرا پیچو رکن قومی اسمبلی تھیں۔۔03 فروری 2009 کو آصفہ زرداری کی 16 ویں سالگرہ کے موقع پر سندھ اسمبلی میں باقاعدہ قراداد منظور کی گئی۔ صوبائی وزیر اطلاعات شازیہ مری نے صدر پاکستان آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کی چھوٹی بیٹی آصفہ زرداری کی سالگرہ کے حوالے سے مبارکباد کی قرارداد ایوان میں پیش کی جس کو ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔
1996 ءآصف محمود ایک پاکستانی کرکٹر ہے جو سندھ کے لیے کھیلتا ہے، محمود نے لسٹ اے میں حیدرآباد ہاکس کے لیے واپڈا کے خلاف ڈیبیو کیا۔ انھیں دسمبر 2014ء میں پاکستان کی قومی انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں بلایا گیا تھا .محمود نے 7 ستمبر 2022ء کو 2022-23ء نیشنل ٹی 20 کپ کے دوران جنوبی پنجاب کے خلاف سندھ کے لیے اپنا T20 ڈیبیو کیا 14 ستمبر 2022 کو محمود نے خیبرپختونخوا کے خلاف ہیٹ ٹرک کی ۔