30 مارچ کو وفات پانے والی چند مشہور شخصیات

1180ء المستضی بامر اللہ حسن بن یوسف ، خلافت عباسیہ کا (18 دسمبر 1170ء تا 27 مارچ 1180ء) 33واں خلیفہ ، مستضی کے دور میں صلاح الدین ایوبی نے دنیائے اسلام میں شہرت پائی۔ مستضی کی بیماری کے دوران ہی الناصرالدین اللہ کی خلافت کی بیعت کر لی گئی۔ (پیدائش: 23 مارچ 1142ء)

1664ء گرو ہرکرشن بمعروف بال گرو یعنی بچہ گرو ، سکھوں کے دس میں سے آٹھویں سکھ گرو۔ گرو ہرکشن کو 5 سال کی عمر میں ہی اپنے باپ گرو ہررائے کے مرنے کے بعد 7 اکتوبر 1661ء کو گرو بنایا گیا۔ وہ 8 سال کی عمر میں دہلی میں پھیلنے والی وبا کی وجہ سے مر گئے۔ اُن کا گرو ہونے کا دور صرف 2 سال 5 ماہ اور 24 دن ہے۔ (پیدائش : 23 جولائی 1656ء)

1813ء جوہان فریڈرک ہینرٹ ، جرمن ریاضی دان، ماہر فلکیات، استاد جامعہ (پیدائش : 19 اکتوبر 1733ء)

1842ء میری وجی لی برن ، فرانسیسی مصورہ (پیدائش: 16 اپریل 1755ء)

1949ء فریڈرخ برجیاس ، نوبل انعام برائے کیمیاء (1931ء) یافتہ جرمن کیمسٹ و استاد جامعہ ، جس نے کوئلے سے توں ایندھن بنانے کا طریقہ ایجاد کیا۔ انہیں یہ انعام جرمن کیمیاء دان کارل بوش کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا ۔ (پیدائش : 11 اکتوبر 1884ء)

1950ء لیون بلوم ، فرانسیسی صحافی، ادبی تنقیدنگار و سیاستدان ، فرانسیسی سوشلسٹ پارٹی کا لیڈر اورفرانس کا پہلا سوشلسٹ وزیر اعظم ، 1946ء میں چند ہفتے وزیر اعظم رہا۔ پھر اقوام متحدہ میں فرانسیسی مندوب مقرر کیا گیا۔ (پیدائش: 9 اپریل 1872ء)

1961ء سید حسین بروجردی یا سید حسین بن علی طباطبائی بروجردی ، شیعہ مجتہد ،آیت اللہ اور مرجع تقلید ، سید حسین طباطبائی کا شجرہ نسب حسن مثنی، امام حسن بن علی بن ابی طالب سے ملتا ہے۔ سید حسین طباطبائی 15 سال کی عمر میں دنیا کے تمام شیعوں کے اکیلے مرجع تقلید اور مجتہد تھے اور 17 سال کی عمر میں قم کے حوزہ علمیہ کے سربراہ بنے۔ (پیدائش : 23 مارچ 1875ء)

1965ء فلپ شوالٹر ہنچ ، نوبل انعام برائے فزیالوجی و طب (1950ء) یافتہ امریکی کیمیاء دان و استاد جامعہ (پیدائش: 28 فروری 1896ء)

1977ء عبد الحلیم علی شبانہ المعروف عبد الحلیم حافظ ، مصری اداکار اور گلو کار ، انہیں مصری اور عربی موسیقی کے چار بڑوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جن میں عبد الحلیم حافظ، ام کلثوم، محمد عبدالوہاب اور فرید الاطرش شامل ہیں۔ (پیدائش: 21 جون 1929ء)

1972ء۔۔۔حافظ محمد صدیق الماس رقم ٭ پاکستان کے نامور خطاط حافظ محمد صدیق الماس رقم 15 اگست 1907ء کو جامکے چیمہ، گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے فن خطاطی کی تعلیم حکیم محمد عالم گھڑیالوی سے حاصل کی اور بہت جلد خود بھی نامور خطاطوں میں شمار ہونے لگے۔ 1934ء میں انہوں نے علامہ اقبال کی کتاب زبورعجم کی خطاطی کی جس کے بعد مولانا ظفر علی خان نے ان سے اپنی کئی کتابوں کی خطاطی بھی کروائی اورانہیں خطاط العصر کا خطاب عطا کیا۔ حافظ محمد صدیق الماس رقم کو زبورعجم کے علاوہ جن مشہور کتابوں کی خطاطی کا اعزاز حاصل ہوا ان میں علامہ عنایت اللہ مشرقی تذکرہ اور حفیظ جالندھری کا شاہنامہ اسلام شامل تھے۔ 30 مارچ 1972ء کو حافظ محمد صدیق الماس رقم انتقال کرگئے۔ حافظ محمد صدیق الماس رقم لاہور میں حضرت طاہر بندگی کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہیں۔

1987ء علامہ احسان الہی ظہیر، عالمِ دین اور خطیب اِسلام۔علامہ احسان الہی ظہیر بن حاجی ظہور الہی ظہیر 31 مئی 1941 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔

ابتدائی تعلیم حفظِ قرآن سے لے کردرسِ نظامیہ اور عالم فاضل تک جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ اور جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے حاصل کیں،اعلیٰ تعلیم کے لیے اسلامک یونیورسٹی مدینہ منورہ تشریف لے گئے، سن 1969 میں ممتاز ڈویژن سے پاس ہوکر وطن آ گئے اورجامعہ پنجاب سے چھ مضامین میں ایم اے کیا یعنی عربی،اردو،فارسی،فلسفۂ تاریخ،ایم او ایل(قانون)اور اسلامیات۔ ۔۔ تمام امتحانات میں اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل کی،آپ کئی زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے. زمانۂ تعلیم ہی سے تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیا تھا،کم وبیش بیس ضخیم کتابیں تالیف کیں اس کے علاوہ بے شمار مقالات و مضامین لکھے،ان کی آخری کتاب قتل سے صرف آٹھ گھنٹے قبل مکمل ہوئی تھی،آپ کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں : 1-القادیانیہ دراسات و تحلیل(عربی) 2-التصوف (عربی) 3-مرزائیت اور اسلام (اردو) 4-البابیہ عرض ونقد (عربی) 5-البہائیہ نقد وتحلیل (عربی) 6-الشیعۃ والسنۃ (عربی،فارسی،انگریزی) 7-الشیعہ و اہل البیت (عربی) 8-الشیعہ و القرآن (عربی) 9-البریلویہ عقائد و تاریخ(عربی) 10-الاسماعیلیہ (عربی) ان میں سے اکثر کتب کے دس سے زیادہ ایڈیشن نکل چکے ہیں، دنیا کی کئی زندہ زبانوں میں ان کتابوں کے ترجمے ہوئے ہیں۔ عربی، اردو، فارسی، انگریزی کے علاوہ ترکی، تھائی، انڈونیشی اور مالدیپی زبانوں میں ان کی کئی کتابیں کئی بار اور کئی کئی ترجموں کے ساتھ نکل چکی ہیں،”الشیعۃ والسنۃ”کے صرف انڈونیشی زبان میں تین ترجمے ہوئے، جن میں ایک پر "پیشِ لفظ” انڈونیشیا کے وزیرِ اعظم ڈاکٹر محمد ناصر نے لکھاہے۔میدانِ صحافت میں طویل عرصہ رہے اور مختلف اوقات میں ہفت روزہ "الاعتصام”ہفت روزہ "اہلِ حدیث”ہفت روزہ "الاسلام”کے مدیر رہے اور پھر اپنا ذاتی ماہنامہ "ترجمان الحدیث”نکالا،جس کے تاحیات مدیر رہے۔علامہ احسان الہی ظہیر 23 مارچ 1987 کی شب موچی دروازہ لاہور میں جمعیۃ اہلِ حدیث کے ایک جلسے میں خطاب کر رہے تھے کہ ایک زور دار دھماکا ہوا ،جس میں آپ شدید زخمی ہوئے،فورا اسپتال لے جایا گیا،جب یہ خبر سعودی عرب پہنچی تو شاہ فہد بن عبدالعزیز ابن سعود کے حکم سے ریاض منتقل کیا گیا ،مگر ہزار کوششوں کے باوجود آپ جانبر نہ ہو سکے اور 30 مارچ 1987 کو شہید ہو گئے۔۔ آپ کو جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہزاروں علما مشائخ اور سوگواروں کی موجودگی میں امام مالک کے قدموں میں سپردِ خاک کیا گیا۔

2002ء سید شرافت علی المعروف صہبا لکھنوی، پاکستانی شاعر، نقاد۔ اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور ماہنامہ افکار کے مدیر صہبا لکھنوی کا اصل نام سید شرافت علی تھا۔ ان کا آبائی وطن لکھنؤ تھا تاہم وہ 25 دسمبر 1919ء کو ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بھوپال، لکھنؤ اور بمبئی سے تعلیمی مدارج طے کئے اور 1945ء میں بھوپال سے ماہنامہ افکار کا اجرا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی میں سکونت پذیر ہوئے اور یہاں 1951ء میں افکار کا دوبارہ اجرا کیا۔ افکار کے ساتھ ان کی یہ وابستگی ان کی وفات تک جاری رہی اور یہ رسالہ مسلسل 57 برس تک بغیر کسی تعطل کے شائع ہوتا رہا۔ صہبا لکھنوی کے شعری مجموعے ماہ پارے اور زیر آسماں کے نام اشاعت پذیر ہوئے جبکہ ان کی نثری کتب میں میرے خوابوں کی سرزمین (سفرنامہ مشرقی پاکستان)، اقبال اور بھوپال، مجاز ایک آہنگ، ارمغان مجنوں، رئیس امروہوی فن و شخصیت اور منٹو ایک کتاب شامل ہیں۔ ٭30 مارچ 2002ء کو صہبا لکھنوی کراچی میں وفات پا گئے۔

Shares: