جنوبی افغانستان کے ضلع مرجاہ میں ایک چھ سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر اس کے والد نے پیسے کے عوض 45 سالہ مرد سے زبردستی شادی کرا دی ہے۔ امریکی نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق، یہ واقعہ گزشتہ دنوں پیش آیا جہاں لڑکے نے، جس کی پہلے سے دو بیویاں ہیں، لڑکی کے خاندان کو شادی کے لیے رقم ادا کی۔
طالبان حکام نے اس واقعے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور لڑکی کو اس کے شوہر کے گھر لے جانے سے روک دیا ہے۔ طالبان کے مطابق، لڑکی کو اس کے شوہر کے گھر تب لے جایا جا سکتا ہے جب وہ کم از کم نو سال کی ہو جائے۔ اگرچہ مقامی طالبان حکام نے کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا، لیکن انہوں نے لڑکی کو زبردستی شوہر کے گھر لے جانے کی اجازت نہیں دی۔مرجاہ ضلع میں لڑکی کے والد اور دولہا کو گرفتار کر لیا گیا ہے، تاہم اب تک ان کے خلاف کوئی رسمی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ لڑکی اس وقت اپنے والدین کے ساتھ ہے۔ شادی کے لیے جس رسم یعنی "ولور” کا اطلاق کیا گیا، اس کے تحت لڑکی کی ظاہری حالت، تعلیم اور دیگر عوامل کی بنیاد پر قیمت مقرر کی گئی۔
یہ واقعہ سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا باعث بنا ہے۔ صارفین نے اس گھناؤنے عمل پر صدمہ اور مذمت کا اظہار کیا ہے۔ شادی کی تصاویر، جن میں دولہا اور کم عمر لڑکی ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں، نے انسانی حقوق کے کارکنوں میں بھی زبردست ردعمل پیدا کیا ہے۔
2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں کم عمر اور قبل از وقت شادیوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ غربت کے بڑھتے ہوئے اثرات اور خواتین و لڑکیوں پر سخت پابندیوں، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل بندش، اس رجحان کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ افغانستان میں شادی کی کم از کم قانونی عمر کا تعین نہیں ہے، اور سابقہ سول کوڈ جس نے لڑکیوں کے لیے 16 سال کی عمر مقرر کی تھی، اب نافذ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی خواتین کی تنظیم کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے باعث کم عمر شادیوں میں 25 فیصد اضافہ اور قبل از وقت حمل کی شرح میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو لڑکیوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں ڈال رہا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں بین الاقوامی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کم عمر شادیوں سے لڑکیوں کی جسمانی، ذہنی اور معاشرتی صحت شدید متاثر ہوتی ہے۔ قبل از وقت شادیوں کے نتیجے میں حمل کے دوران صحت کے خطرات، گھریلو تشدد، اور سماجی تنہائی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ یہ تنظیمیں زور دیتی ہیں کہ کم عمر شادیوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ افغانستان کے سماجی اور اقتصادی استحکام کو محفوظ رکھا جا سکے اور نوجوان لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔








