50 ہزار کسانوں کی پنچایت،کیا بڑا ہونے جا رہا ہے ؟ اہم انکشافات مبشر لقمان کی زبانی
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے بھارت میں کسان تنظیموں کے مظاہرے 72
ویں روز بھی جاری رہے۔ ہریانہ میں کسان تنظیموں کی بڑی پنچایت ہوئی جس میں 50ہزار کسانوں نے شرکت کی۔ پنچایت سے خطاب کرتے ہوئے کسان رہنما درشن پال نے کہا کہ ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت ختم کرکے مرکزی اتحاد کو ایک جھٹکا دینا چاہیے ۔ کیونکہ ان کے مطابق وقت آگیا ہے کہ ہریانہ کی کسان مخالف حکومت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ تو کسان رہنما بلبیر سنگھ کا بھی کہنا ہے کہ ہریانہ کی ریاستی سرکار پر دباؤ بڑھایاجائے ۔ جبکہ راکیش تیکیٹ نے کہا کہ مطالبات پورے ہونے تک گھر واپس نہیں جائیں گے ۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ صورتحال یہ ہے کہ کسانوں نے مودی سرکار کو متنازعہ قوانین واپس لینے کے لیے 2 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دے دی ہے ۔ اسکے بعد یہ سکھ کسان بہت بڑا کرنے والے ہیں ۔ جس کے بارے 2اکتوبر کو ہی پتہ چلے گا ۔ جبکہ دو روز قبل کسانوں کی جانب سے کامیاب پہیہ جام ہڑتال پر کئی علاقوں میں ٹریفک مکمل بند رہی۔ ۔ میں آپکو بتاوں پنجاب جو کہ بھارت کی کُل گندم کا 20
فیصد اور چاول کا 9 فیصد اکیلے پیدا کرتا ہے اسی طرح وہ دنیا کا 2 فیصد کپاس پیدا کرتا ہے یوں یہاں کے سکھ کسانوں کا ملکی زرعی ترقی میں بہت بڑا حصہ ہے۔ دراصل یہ قوانین مودی کی جانب سے بہت بڑی سازش ہیں۔ کیونکہ بالکل ایسا ہی کھیل ۔۔۔ کھیل کر مودی نے
۔۔۔ گاؤ رکشا ۔۔۔ کے نام پر مسلمانوں کو leagther industryسے آوٹ کروا دیا ہے اور اب یہ ہی بڑے بڑے ہندو کاروباری گروپ اس کام کو سنبھالتے ہیں ۔ مگر سکھ بروقت مودی کے عزائم کو بھانپ گئے اور انھوں نے بی جے پی کی ایک نہ چلنے دی ۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کسان تحریک پر بھارتی حکومت اور ٹوئٹر انتظامیہ میں اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں ۔ بھارت میں ٹوئٹر کی اعلیٰ عہدیدار تک مستعفی ہوگئی ہیں ۔ تو ٹویٹر نے مزید 250 اکاؤنٹس بند کرنے کی درخواست کو مسترد کردیا ہے ۔ جبکہ بھارتی حکومت کی خواہش ہے کہ ٹو یٹر ان اکاؤنٹس کو بھارتی سائبر کرائم قوانین کے تحت معطل کرے ۔ ۔ دوسری جانب مودی سرکار تو دھمکیاں دے ہی رہی تھی اب کنگنا رناوت نے بھی ٹوئٹر کو دھمکی دی ہے کہ اگر ان کا اکاؤنٹ معطل کیا گیا تو انڈیا میں ٹوئٹر بند کردیا جائے گا۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کنگنا نے ٹوئٹر کے مالک کو mention کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ چین کی کٹھ پتلی ٹوئٹر ان کا اکاؤنٹ معطل کرنے کی دھمکی دے رہا ہے حالانکہ انہوں نے کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں کی۔ جس دن میں جاؤں گی تم کو ساتھ لے کر جاؤں گی۔ چینی ٹک ٹاک کی طرح تم بھی بین ہوجاؤ گے۔۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے اس سے پہلے کنگنا نے کسانوں کی حمایت پر بھارتی کرکٹرز کو کہا کہ یہ کرکٹر بھی دھوبی کے کتے کی طرح نہ گھر کے ہیں اور نہ گھاٹ کے۔ ان کے اس ٹویٹ پر انھیں شائقین کرکٹ کی جانب سے برا بھلا کہا جا رہا ہے، ٹویٹر نے بھی یہ ٹویٹ ہٹا دی تھی۔ ۔ جبکہ اس سے بھی پہلے کنگنا نے دعویٰ کیا کہ امریکی گلوکارہ ریانہ نے بھارتی احتجاجی کسانوں کے حق میں ٹوئٹ کرنے کے لیے 100 کروڑ بھارتی روپے لیے ہیں۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ۔ مزے کی بات میں آپکو بتاوں کہ فوربز کے مطابق پاپ اسٹار ریانہ کی دولت 600 ملین ڈالرز تقریباً 4 ہزار 300 کروڑ بھارتی روپے ہے۔ ریانہ کہ فاؤنڈیشن کووڈ 19 ریلیف فنڈ میں 5 ملین ڈالرز تقریباً 36 کروڑ بھارتی روپے عطیہ کیے تھے۔ جب کہ ریانہ نے اپنی جیب سے 2 ملین ڈالرز عطیہ کیے تھے۔ ۔ اس لیے میں صرف گنگنا کو اتنا کہوں گا کہ کوئی اچھا نشہ کر لیا کریں ۔ تاکہ کچھ ہوش تو رہے آپ کو ۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت وہ ملک ہے جوخود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے لیکن اب یہاں پرعوام کی حکومت کی بجائے کارپوریٹ سرمایہ کاروں کے چندے پر پلنے والے ایک ایسے چھوٹے آدمی کی حکومت ہے جو عوام کو کچھ دینے سے قاصر ہے یا اِس کی انا آڑے آر ہی ہے ۔ ۔ مودی حکومت کی جانب سے کل جماعتی اجلاس کا ڈھونگ بھی رچایا گیا جس کے اختتام پر یہ بات سامنے آئی کہ بھارتی وزیر اعظم کا رپوریٹ مافیا کی حمایت سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ مودی کی مشکل یہ ہے کہ وہ کارپوریٹ مافیا سے چندہ لے کر وزیرا عظم بنے ہیں ۔ بڑی کمپنیوں کے مفادات کا دفاع ان کی مجبوری بن چکا ہے ۔ اب ہندوستان کا میڈیا چیخ اور واویلا کررہا ہے کہ کسانوں اور سکھوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے ۔ کیونکہ اب سکھ کمیونٹی اقوام عالم کو بتا رہی ہے کہ بھارت میں سیکولر ازم کا پردہ چاک ہو چکا ہے یہ صرف ہندو اسٹیٹ ہے جہاں مسلمانوں ،عیسائی ،سکھ اور خود نچلی ذات کے ہندو پریشان اور خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سکھوں نے انکو دنیا میں ذلیل کروادیا ہے ۔ کیونکہ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ پوری دنیا میں ہر بھارتی سے کشمیریوں سمیت سکھوں کے متعلق بھی سوال ہونا شروع ہوچکے ہیں ۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ آپ صرف اس چیز سے اندازہ لگا لیں کہ اس تحریک کی حمایت میں اب تک 200 سے زیادہ گیت آچکے ہیں۔ اب یوں لگتا ہے کہ پوری پنجابی میوزک انڈسٹری میں کسانوں کے مظاہروں کے علاوہ کسی اور موضوع پر کوئی ریکارڈنگ نہیں ہو رہی۔ ان گیتوں کی ریکارڈ تعداد یہ بتاتی ہے کہ کسانوں کا غصہ پورے سماج میں پھیل چکا ہے اور ثقافتی گہرائی پا چکا ہے۔ صرف فنکار ہی اس تحریک کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ سابق فوجی، اہم سیاستدان اور کھلاڑی بھی اس تحریک کے ساتھ ہیں جنہوں نے بھارت سرکار کی طرف سے ملنے والے اعزازات لوٹا دیے ہیں۔ اعزازات واپس کرنے والوں میں پنجاب کے موجودہ اور سابق وزرائے اعلیٰ تک شامل ہیں۔ تو یہ صرف کسانوں کے تحریک نہیں ہے ۔ یہ پورے پنجاب کی تحریک بن چکی ہے ۔ بھارت کو کسانوں کے خلاف اگرچہ ہر محاذ پر ناکامی ہورہی ہے لیکن وہ پھر بھی اپنا منہ کالا کرنے سے باز نہیں آرہا ہے ۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے دنیا کو جنجھوڑنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ دنیا نے مجموعی طور پر بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ سب کو صرف اتنا یاد ہے کہ بھارت بڑی منڈی ہے۔ حالانکہ مودی ایک طرف تو اپنے ملک کو برباد کرنے پر بضد ہیں اور دوسری طرف خطے میں جنگ کا الاؤ روشن کرنے پر بھی تُلا ہوا ہے ۔ آپ دیکھیں مودی سرکار کے لیے سکھ گلے کی ہڈّی بن چکے ہیں ۔ نئی دہلی کے آرام دہ کمروں میں بیٹھے ہوئے حکام نے سوچا تھا کہ تھوڑی بہت دھونس دھمکی اور طاقت کے کچھ استعمال سے بات بن جائے گی مگر ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ جو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس رہا ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے جو آنکھیں دکھانا شروع کی ہیں اس سے مودی اور اُن کا ٹولہ شدید الجھن سے دوچار ہیں۔ طاقت کے استعمال سے بھی دال نہیں گلی۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ناراض کسانوں کو مزید ناراض کرکے مودی سرکار نے ایک نیا کھیت تیار کیا ہے۔ اس نئے کھیت میں اُگنے والی فصل بھارت کا امن و استحکام داؤ پر لگائے گی۔ نریندر مودی اور اُن کے بے دماغ ساتھی نفرت کی آگ میں ایسے جل رہے ہیں کہ کچھ بھی سمجھنے اور معقولیت کے دائرے میں رہتے ہوئے موزوں ترین اقدامات کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اُن کا گمان ہے کہ کسان تھک ہار کر اپنے اپنے گھروں کو چلے ہی جائیں گے۔ اگر آپ یہ فرض کر بھی لیں کہ کسان گھروں کو واپس چلے بھی جائیں مگر تب تک اُن کا احتجاج اتنا بگاڑ پیدا کرچکا ہوگا ۔ جس کا مودی سرکار اور اسکے مشیروں کو بالکل اندازہ نہیں ہے ۔ جتنی تیزی سے وقت نکلا جارہا ہے اُس سے کہیں زیادہ تیزی سے بھارت کا معاشی و معاشرتی تانا بانا ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ قدرت کا ایک اپنا قانون بھی ہے، جب زیادتیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو قانون قدرت حرکت میں آجاتا ہے۔ لگتا یوں ہے جیسے ہٹلر کے ساتھ ہوا ۔ جلد ہی وہی کچھ دہشت گرد مودی کے ساتھ بھی ہونے والا ہے