ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر برطانوی حکومت اور کاروباری ادارے ملازمین کی صحت کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کریں گے تو آئندہ 10 برس میں مزید 6 لاکھ افراد طویل المیعاد بیماریوں کے باعث ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
رائل سوسائٹی آف پبلک ہیلتھ کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2035ء تک 33 لاکھ سے زائد بالغ افراد مختلف طبی مسائل کے باعث معاشی سرگرمیوں سے الگ ہو سکتے ہیں، جس سے برطانوی معیشت کو سالانہ 36 ارب پاؤنڈ کا نقصان ہوگا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ صورتحال ایسی ہوگی جیسے پورا برِسٹل شہر کام سے الگ ہو جائے، اس لیے ضروری ہے کہ دفاتر اور کام کی جگہوں کو صحت کے فروغ کے مراکز میں تبدیل کیا جائے تاکہ ذہنی امراض، دل کے عارضے اور جوڑوں کی تکالیف جیسے مسائل کا مؤثر حل ممکن ہو سکے۔
رائل سوسائٹی آف پبلک ہیلتھ کے چیف ایگزیکٹیو ولیم رابرٹس نے کہا کہ برطانیہ کو درپیش پیداواری بحران کی ایک بڑی وجہ افرادی قوت میں طویل المیعاد صحت کے مسائل ہیں، لہٰذا کام کی جگہوں پر صحت کے تحفظ کے نظام میں بنیادی تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ حکومت ایک ’نیشنل ہیلتھ اینڈ ورک اسٹینڈرڈ‘ متعارف کرائے، جس کے تحت تمام ملازمین کو کم از کم صحت و فلاحی سہولتیں فراہم کرنا لازمی قرار دیا جائے
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے والی اسرائیلی فوج کی وکیل لاپتہ
حساس معلومات خدشہ،اسرائیلی فوج کے سینئر افسران سے چینی گاڑیاں واپس
مشرف زیدی وزیر اعظم کے غیر ملکی میڈیا کے ترجمان مقرر
غزہ صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک مقام ہے، انتونیو گوتریس







