وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اینٹی کرپشن سرکل لاہور نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے نو افسران کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال، رشوت اور بلیک میلنگ کے سنگین الزامات پر مقدمہ درج کرلیا ہے۔ یہ مقدمہ معروف یوٹیوبر سعدالرحمٰن عرف ڈکی بھائی کی اہلیہ اروب جتوئی کی شکایت پر درج کیا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ڈکی بھائی کے خلاف سوشل میڈیا پر جوئے کی ایپس کے فروغ سے متعلق مقدمہ کی تفتیش لاہور این سی سی آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض کو سونپی گئی تھی۔ دورانِ تفتیش انکشاف ہوا کہ مذکورہ افسر نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ڈکی بھائی کے اہلخانہ سے 90 لاکھ روپے رشوت وصول کی۔ایف آئی آر میں درج ہے کہ شعیب ریاض نے یہ رقم مختلف طریقوں سے حاصل کی، جن میں شیخوپورہ میں سلمان عزیز کے ذریعے 60 لاکھ روپے نقد جبکہ 3 لاکھ روپے کے تین چیک شہباز نامی فرنٹ مین کے ذریعے وصول کیے گئے۔ مزید یہ کہ ملزم نے ڈکی بھائی کے اکاؤنٹ سے 3 لاکھ 26 ہزار 420 ڈالرز اپنے اکاؤنٹ میں بائنانس (Binance) کے ذریعے منتقل کیے۔مقدمے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز،ڈپٹی ڈائریکٹر (قائم مقام انچارج) زوار احمد،اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض،اسسٹنٹ ڈائریکٹر مجتبیٰ ظفر،سب انسپکٹر علی رضا،سب انسپکٹر یاسر رمضان،ڈپٹی ڈائریکٹر اسلام آباد محمد عثمان،ڈپٹی ڈائریکٹر اسلام آباد ایاز خان،فرنٹ مین سلمان عزیز نامزد افسران ہیں،

ان میں سے متعدد افسران کئی دنوں سے “لاپتہ” تھے، تاہم گزشتہ روز ایف آئی اے نے ان کی گرفتاری ظاہر کر دی۔یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 109 اور 161 کے تحت درج کیا گیا ہے، جن کا تعلق بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت سے ہے۔ مزید برآں، انسدادِ بدعنوانی ایکٹ 1947 کی شق 5(2) کے تحت بھی کارروائی شامل ہے، جو سرکاری اہلکاروں کی مجرمانہ بدعنوانی سے متعلق ہے۔

آج عدالت میں گرفتار چھ افسران کے وکیل بیریسٹر میاں علی اشفاق نے ایک درخواست دائر کی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ملزمان کو گرفتار کر کے نہ ان کے اہلخانہ اور نہ ہی وکلا کو ملاقات کی اجازت دی جا رہی ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ ایف آئی اے نے ایف آئی آر کی کاپی دینے سے بھی انکار کر دیا، جو آئین کے آرٹیکل 10-اے کے خلاف ہے۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ گرفتار افسران کو فوری طور پر عدالت کے روبرو پیش کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں تاکہ ان کے بنیادی حقوق محفوظ رہیں۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ ملزمان کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرنا قانونی تقاضہ ہے، بصورتِ دیگر یہ غیر قانونی حراست کے زمرے میں آتا ہے۔

ذرائع کے مطابق، گرفتار ہونے والے افسران میں ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز کو گزشتہ ماہ مختلف تنازعات کے باعث ان کے عہدے سے ہٹا کر اسلام آباد ہیڈکوارٹر رپورٹ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔یہ تنازعات متعدد یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز (جن میں ڈکی بھائی اور رجب بٹ شامل ہیں) کے خلاف کارروائیوں، وکلاء کے ساتھ تنازعے اور لاہور کے بعض صحافیوں سے اختلافات سے متعلق تھے۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کے روز لاپتہ ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر پولیس کو ایک ہفتے کی مہلت دی تھی۔ محمد عثمان کی اہلیہ روزینہ عثمان نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ 14 اکتوبر کو چار مسلح افراد ان کے شوہر کو اغوا کر کے لے گئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد ازاں خود روزینہ عثمان بھی لاپتہ ہو گئیں، جس پر عدالت نے دونوں کے حوالے سے پولیس سے تازہ رپورٹ طلب کر لی۔

ڈان نیوز کے مطابق جب نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے ترجمان سے مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک “انتہائی سنگین اور حساس معاملہ” ہے۔تاہم ذرائع کے مطابق افسران کی گرفتاری اور غائب ہونے کا معاملہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی مالی سرگرمیوں کی تحقیقات سے جڑا ہوا ہے۔

Shares: