آج سے 21 برس قبل 11 ستمبر 2001 بروز منگل خودکش حملہ آوروں نے چار امریکی مسافر بردار طیارے اغوا کئے ان میں سے دو طیاروں کا ہدف ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت تیسرے طیارے کا ہدف پینٹاگون اور چوتھے طیارے کا ہدف ممکنہ طور پر واشنگٹن میں واقع امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل تھی ۔
چار طیارے اغوا کرنے والے ہائی جیکروں کی کل تعداد 19 تھی جن میں سے کم از کم چار پائلٹ تھے اور انہوں نے جہاز اڑانے کی تربیت بھی امریکہ میں ہی حاصل کی تھی ان لوگوں کا مقصد ایک ہی دن امریکہ کے اہم اور حساس مقامات پر حملہ کر کے دنیا کی توجہ امریکہ کے مظالم کی طرف مبذول کروانی تھی ۔
امریکی وقت کے مطابق صبح 08.46 منٹ پر پہلا اغوا شدہ طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمالی ٹاور سے ٹکرایا جس کی وجہ سے ٹاور کی 93 نمبر سے 99 نمبر تک منزلوں کو شدید نقصان پہنچا، میڈیا کے لئے یہ انتہائی اہم خبر تھی موقع پر فوراً میڈیا کوریج شروع ہو گئی اور لائیو کوریج کے دوران ہی پہلا طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے کے تقریباً 18 منٹ بعد 09.03 منٹ پر دوسرا اغوا شدہ طیارہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جنوبی ٹاور سے ٹکرایا جسے کروڑوں لوگوں نے لائیو اپنی ٹیلی ویژن سکرینوں پر دیکھا۔
طیاروں کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے اس ٹکراؤ کے نتیجے میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے دونوں ٹاور منہدم ہو گئے اور تقریباً 2606 افراد کی ہلاکت ہوئی ان ہلاک شدگان میں امدادی کارکن بھی شامل ہیں جو حادثے کے بعد جائے حادثہ پر امدادی کارروائیاں کرتے ہوئے ہلاک ہوئے اور کچھ لوگ حادثے میں زخمی ہو کر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں ہلاک ہوئے ۔
تیسرے اغوا شدہ طیارے نے امریکی محکمہ دفاع کی عمارت پینٹاگون کے مغربی حصے کو مقامی وقت کے مطابق 09.37 پر نشانہ بنایا اس حملے میں عمارت میں موجود 125 لوگ ہلاک ہوئے، چوتھا طیارہ اپنی ممکنہ منزل پر طیارے میں موجود مسافروں یا عملے کی مزاحمت کی وجہ سے نہ پہنچ سکا اور مقامی وقت کے مطابق 10.03 منٹ پر گر کر تباہ ہو گیا ۔
ان حملوں میں 19 ہائی جیکروں، تمام طیاروں کے مسافروں عملے اور ہدف عمارتوں میں موجود لوگوں سمیت مجموعی طور پر 2977 افراد مارے گئے مرنے والوں کی اکثریت کا تعلق نیویارک سے تھا، حملہ کرنے والے ہائی جیکروں نے اپنے تین اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا جبکہ وہ اپنے ایک ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہے ۔
امریکہ نے تحقیقات کے نتیجے میں ان حملوں کا الزام القاعدہ پر عائد کیا اور القاعدہ کے اس وقت کے سربراہ اسامہ بن لادن پر خالد شیخ محمد کے ذریعے دہشت گرد حملے کی پلاننگ کرنے اور حملے کے لئے دہشت گردوں کو تمام سہولیات فراہم کرنے کا الزام عائد کیا، اسامہ بن لادن کا اس وقت قیام افغانستان میں تھا چنانچہ امریکی حکومت نے اس وقت کی افغانستان کی حکومت کے سربراہ ملا عمر سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو غیر مشروط طور پر امریکہ کے حوالے کیا جائے تاکہ ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے ۔
افغانستان کی حکومت نے امریکہ کو اسامہ بن لادن کی حوالگی کے حوالے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اسامہ افغانستان میں ہمارے مہمان ہیں اور مہمان نوازی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم انہیں ان کے دشمنوں کے حوالے نہ کریں لیکن اگر انہوں نے بےگناہ انسانوں کا خون بہانے کے لئے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کیا ہے تو ہم ان کے اس طرزِ عمل کی بالکل حمایت نہیں کرتے آپ ہمیں اسامہ کے نائن الیون میں ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کریں ہم ان کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کریں گے ۔
طاقت کے نشے میں چور جارج ڈبلیو بش نے ملا عمر کی اس آفر کو حقارت سے ٹھکرا دیا اور افغانستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دی لیکن ملا عمر اپنے موقف پر ڈٹے رہے چنانچہ جارج بش نے اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کر دیا اس حملے کے نتیجے میں افغانستان سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا لیکن امریکہ اسامہ بن لادن کو ختم نہ کر سکا۔
امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے پاکستان کو بھی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی اور انکار پر پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی اس وقت ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر امریکہ کی حمایت کا اعلان کر دیا، افغانستان کی جنگ کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کر کے پاکستان آئے ۔
پاکستان کی افغانستان میں جنگ کے دوران مبہم پالیسیوں کی وجہ سے طالبان اور القاعدہ دونوں پاکستان سے بدظن ہو گئے اور ان کے مختلف گروپوں نے ردعمل کے طور پر پاکستان میں خودکش دھماکے شروع کر دیئے ان دھماکوں کی وجہ سے پاکستان کو بےپناہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر شدید بوجھ پڑا جبکہ ان مہاجرین میں موجود جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا اور سیاحت تقریباً ختم ہو گئی ۔
ملاعمر بعد میں بیمار ہو کر فوت ہوئے،نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد کو 2003 میں پاکستان سے گرفتار کر کے گوانتانا موبے رکھا گیا جہاں سے ان کے بارے میں مزید خبر نہیں ہے جبکہ اسامہ بن لادن 2011 میں ایبٹ آباد میں ایک امریکی آپریشن کے دوران مارے گئے ابھی حال ہی میں اسامہ کے بعد القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی بھی افغانستان میں ڈرون حملے میں ہلاکت کی خبریں ہیں ۔
امریکہ 20 سال افغانستان میں اپنا گولہ بارود ضائع کر کے اور معیشت کی تباہی کر کے واپس جا چکا ہے افغانستان میں دوبارہ طالبان کی حکومت آ گئی ہے القاعدہ بھی اپنے نئے سربراہ کے ساتھ پرانے نظریات پر کام کر رہی ہے، القاعدہ سے بڑی شدت پسند تنظیم داعش کا بھی ظہور اور قلع قمع ہو چکا ہے لیکن امریکہ کے اس گناہ بے لذت کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کی تباہی نکل گئی ہے اور اس وقت پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے اس ساری گیم میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا کہ اب اس کے اتحادی اور مخالف دونوں اسے ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں ۔








