اسلام آباد:فریڈم نیٹ ورک کی ‘سالانہ امپیونٹی رپورٹ’ 2022 کے مطابق پاکستان میں 2012 سے 2022 کے درمیان ہونے والے صحافیوں کے قتل کے 96 فیصد واقعات میں ملزمان کو کوئی سزا نہیں ملی۔
ذرائع کے مطابق ‘قتل کا میدان: پاکستان میں مقتول صحافیوں کے لیے کوئی انصاف نہیں’ کے عنوان سے رپورٹ صحافیوں کے خلاف جرائم کے لیے استثنیٰ کے خاتمے کے عالمی دن سے پہلے جاری کی گئی جو کہ ہر سال 2 نومبر کو منایا جاتا ہے۔یہ تحقیق صحافیوں کے تحفظ اور ان کے خلاف کیے جانے والے جرائم میں سزا نہ ملنے کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے 2012 کے ایکشن پلان کے 10 سال مکمل ہونے کے تناظر میں کی گئی۔
پاکستان نے پہلی بار اکتوبر 2013 میں اس یو این پلان آف ایکشن کی توثیق کی تھی اور بعد ازاں پروٹیکشن میڈیا پروفیشنلز اینڈ جرنالسٹ ایکٹ 2021 پر عمل درآمد کا عزم کیا۔رپورٹ کے مطابق 2012 سے 2022 کے درمیان 53 پاکستانی صحافیوں کو قتل کیا گیا لیکن ان 53 کیسز میں سے صرف 2 کے مجرموں کو سزا سنائی گئی۔
عمران خان ایماندار اورمخلص انسان،آرمی چیف کو کبھی غدار نہیں کہا:فیصل واوڈا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ باقی 96 فیصد مقدمات میں کرمنل جسٹس سسٹم مقتول صحافیوں اور ان کے سوگوار خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے رپورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں اور میڈیا کے خلاف جرائم میں سزا نہ ملنا اور استثنیٰ بدترین صورتحال اختیار کر رہا ہے اور دھمکیوں کے شکار صحافی ارشد شریف کا کینیا میں حالیہ قتل ہمیں دکھاتا ہے کہ صحافیوں اور پریس کی آزادی کے خلاف جرائم کے مرتکب ملزمان کتنے مضبوط ہو رہے ہیں۔
روس نے امریکی اور یورپی تجارتی سیٹلائٹس تباہ کرنے کی دھمکی دیدی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ناقص تحقیقات کی وجہ سے پولیس بہت سے معاملات میں چالان پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے، قانونی کارروائی کے ابتدائی مرحلے میں ہی انصاف کے قتل اور استغاثہ کی نااہلی کی وجہ سے زیادہ تر مقدمات میں عدالتوں میں ٹرائل ہی مکمل نہیں ہو پاتا۔‘
آرمی چیف سے ملاقاتوں میں کوئی غیرآئینی مطالبہ نہیں کیا،الیکشن کا مطالبہ…
اقبال خٹک نے کہا کہ رپورٹ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں وفاقی سطح اور صوبہ سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے خصوصی طور پر قانون سازی کے باجود بھی صحافی غیر محفوظ ہیں۔یہ رپورٹ قتل کیے گئے صحافیوں کے اہل خانہ کے علاوہ ان کے ساتھ کام کرنے والے میڈیا ورکرز، مقامی پریس کلب اور صحافیوں کی تنظیموں سے حاصل کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔