طاقت کا محور ۔۔۔ محمد نعیم شہزاد

عورت کو کسی بھی معاشرے میں انتہائی اہم مقام حاصل ہے۔ فطری طور پر مخالف جنس میں قوت کشش پائی جاتی ہے اور یہ قوت ہی انسان سے بڑے سے بڑا مقصد حاصل کرانے کے پیچھے کار فرما ہو سکتی ہے۔ جس طرح انسان کی عمومی تقسیم دو اقسام، مرد اور عورت پر ہے اسی طرح اعمال اور مقاصد بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ مثبت یا منفی۔ عورت کا کردار دونوں پہلوؤں میں نظر آتا ہے۔ تاریخِ انسانی کے مختصر سے مطالعہ سے یہ حقیقت بآسانی آشکار ہو سکتی ہے کہ عورت کی وجہ سے بہت سے جھگڑے ہوئے اور خون بہے۔ بلکہ تاریخِ انسانی کے پہلے قتل میں بھی عورت کا دخل رہا ہے۔ اور ایک عورت کی درخواست پر ایک پورا شہر بھی ظلم کے پنجہ استبداد سے نجات پا گیا۔ عورت کی اسی صلاحیت کی بدولت شیطان بھی عورت پر وار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور عورت مرد کو بآسانی رضامند کر لیتی ہے۔ اس تحریر کے مندرجات الزامی نہیں ہیں بلکہ مبنی بر حقیقت ہیں۔
ہر کام کو کرنے کا کوئی اصول اور قاعدہ ہوتا ہے اسی طرح سے زندگی گزارنے کے لیے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ پھر یہ اصول بھی کئی اطوار پر منقسم ہیں۔ کچھ ملکی قوانین ہیں جو ہر ملک میں مختلف ہو سکتے ہیں اور کچھ معاشرتی روایات جو ہر معاشرے میں متنوع ہیں۔ اسی طرح سے کچھ قوانین خالق ارض و سما نے بنائے ہیں۔ یہ قوانین عالمگیر نوعیت کے ہیں اور ہر وہ شخص جو اللہ اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے ان کی پاسداری لازماً کرنی چاہیے۔ اور اس کا تمسخر نہیں اڑانا چاہیے۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ کیا موجودہ دور میں عورت اپنی صلاحیتوں کا استعمال اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود میں رہ کر رہی ہے؟ کیا اس قوت کا مثبت استعمال ہو رہا ہے یا کہ منفی۔ یاد رہنا چاہیے کہ ہمارے تمام اعمال اللہ کے ہاں ریکارڈ کیے جا رہے ہیں اور روز آخرت ان کی جوابدہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود میں رہ کر عورت اپنے خالق اور زمانے کی نظر میں عظمت پا سکتی ہے اور حکم عدولی کر کے دونوں جہانوں میں رسوا بھی ہو سکتی ہے۔ خود کو چادر چار دیواری میں محصور سمجھے تو یہ اس پر منحصر ہے اور محفوظ و مامون سمجھے تو یہ اس کی خوش بختی۔

Leave a reply