زینب الرٹ بل کی آج اسمبلی سے منظوری کا امکان
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں جمعرات کو بچوں کے تحفظ کے لئے ”زینب الرٹ” بل پر قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کر دی گئی۔ رپورٹ پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ، چیئرمین قائمہ کمیٹی انسانی حقوق بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں حتمی شکل دی گئی ہے۔
بل کی آج جمعہ کو قومی اسمبلی سے منظوری کا امکان ہے۔ اس بارے میں حکومت و اپوزیشن میں اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری کے ایوان میں موجود نہ ہونے پر ان کی جگہ شازیہ مری نے گمشدہ اور اغواء شدہ بچوں کی جلد بازیابی کی وفاقی و صوبائی انتظام سے متعلق بل پیش کیا۔
بلاول بھٹو کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے زینب الرٹ بل کو کافی عرصے تک طول دیا مگر اب بل قومی اسمبلی میں پیش ہونے جارہا ہے۔ اپوزیشن اس کی منظوری کیلئے بھی کردار ادا کرے گی
واضح رہے کہ قائمہ کمیٹی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 9 اکتوبر 2019 کو ’زینب الرٹ بل‘ کی منظوری دے دی تھی۔ کمیٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ یہ بل صرف اسلام آباد میں لاگو ہوگا۔ اسے ملک بھر میں نافذ کرنے کیلئے چاروں صوبائی اسمبلیوں کو بھی ’زینب الرٹ بل‘ پاس کرنا چاہیے تاکہ بچوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔
زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی بل 2019ء پر قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی رپورٹ شازیہ مری نے پیش کی۔ اسلام آباد میں معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے۔ وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ زینب الرٹ بل کو بغیر کسی تاخیر کے منظور کیا جائے۔ جمعہ کو بل منظور کر کے سینیٹ کو بھجوا دیا جائے۔ پہلے ہی بہت تاخیرہو چکی ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ فوری قانون سازی کا مرحلہ مکمل ہو جائے۔
زینب الرٹ بل قصور کی ننھی بچی زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد وقافی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے پیش کیا تھا۔ بل کا مقصد 18 سال سے کم عمر لاپتہ اور اغوا شدہ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین واضع کرنا ہے۔ بل کے مطابق اسلام آباد میں ’چلڈرن پروٹیکشن ایکٹ 2018‘ کے تحت ادارہ قائم کیا جائے گا جبکہ لاپتہ بچوں کی فوری بازیابی کیلئے ’زارا‘ یعنی زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام بھی بل کا حصہ ہے۔
زیب الرٹ بل کے تحت بچوں سے متعلق معلومات کے لیے پی ٹی اے، سوشل میڈیا اور دیگر اداروں کے تعاون سے ہیلپ لائن اور ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل قومی کمیشن برائے حقوق طفل متعلقہ ڈویژن کی مشاورت سے سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سربراہی میں خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دے گا۔
اس بل کے تحت گمشدہ بچوں کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے میں تاخیر پر سرکاری افسروں کو ایک سال تک قید کی سزا بھی ہو سکے گی۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ زینب الرٹ بل جلد قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا ، وفاقی حکومت بچوں پر تشدد کی روک تھام اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ بین الاقوامی انسانی اور بچوں کے حقوق کے دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں بچوں پر تشدد کا معاملہ اٹھایا اور بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کو صحت و تعلیم کی فراہمی کے عزم کا اظہار کیا۔
شیریں مزاری کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم آفس میں خصوصی سیل قائم کیا گیا ہے جس میں بچوں کے اغواء سے متعلق شکایت درج کرائی جا سکتی ہے،بچوں پر تشدد کی روک تھام اور حقوق کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے، معاشرہ میں بچوں کے حقوق سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اس حوالہ سے ہمیں معاشرہ کی سوچ تبدیل کرنا ضروری ہے، بچے ہمارا مستقبل اور ملک کا اثاثہ ہیں۔
لترپروگرام ہرصورت ختم ہونا چاہیے،رحمان ملک کی آئی جی پنجاب سے درخواست
بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات کو ختم کرنا ہوگا، قائمہ کمیٹی برائے داخلہ
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری برائے انسانی حقوق رابعہ جویری آغا نے وزارت کی جانب سے بچوں پر تشدد کی روک تھام اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے حوالہ سے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔