2019ء لوٹ مار کے احتساب کا سال، تحریر:محمد حسن رضا
ایک وقت تھا قومی احتساب بیورو (نیب)جسے تمام سیاستدان ،افسران ،کاروباری شخصیات سمیت ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے اور نیب کسی بھی طاقتور شخص کے خلاف ایکشن لینے سے گھبراتا تھا، یہاں تک کہ یہ وہ ادارہ تھا کہ یہ جاگیرادار لوگوں کی گھر کی لونڈی بن چکی تھی ، اور ہر طاقتور شخص اس کو صرف اور صرف اپنے لئے استعمال کرتا تھا، لیکن پھر کیا تھا کہ اچانک تبدیلی آئی ،
وہ بھی ایسی کہ ایک ریٹائرڈ جج کو چیئرمین نیب اور ایک ریٹائرڈ فوجی افسر میجر (ر)شہزاد سلیم کو لاہور میں اہم ذمہ داری سونپ دی گئی، ان کی تعیناتیوں کے وقت حکومت اور اپوزیشن تمام افراد متفق نظر آئے ۔ پھر آہستہ آہستہ ہر سیکٹر میں انکشافات ہونے لگے ،کہیں کسی کے پیچھے کارروباری شخصیت کا ہاتھ تو کسی کے پیچھے طاقتور بیوروکریٹ توکہیں سیاستدان یہاں تک کہ سابق وزراء اعظم اور وزراء اعلیٰ، اور پھر گورنر ، تو کہیں وزراء اور اسپیکر ، صدر تک بھی مبینہ کرپشن میں پیچھے نہ تھے۔ سرکاری خزانے کو لوٹنے اورقبضہ مافیا کی مدد کا بازار گرم تھا۔ پھر ایک دن یہ آیا کہ نیب کے نام سے سب خوف کھانے لگے ، کیونکہ جب ایکشن لیا جانے لگا ۔قانون اور رولز کی کتاب کو سامنے رکھا تو پھر ہر دوسرا طاقتور شخص قانون کی گرفت میں آنے لگا۔ نیب نے لوٹے گئے اربوں روپے ثبوتوں کی روشنی میںریکور کر کے سرکاری خزانے میں جمع کروائے ۔
نیب اور حکومت کی کارکردگی کی بدولت پاکستان بدعنوانی کے تاثر کے حوالے سے اعشاریے سی پی آئی میں 175 سے 116 ویں نمبر پر آگیا ہے ۔پاکستان واحد ملک ہے جس کا سی پی آئی نیچے آنے کا رجحان ہے ۔ ہماری کارکردگی کو بھارت سمیت سارک ممالک کی جانب سے سراہا گیا ہے ، اسی لئے نیب سارک اینٹی کرپشن فورم کا متفقہ طور پر چیئرمین منتخب ہوا ہے ۔جو کہ پاکستان کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے ۔ پاکستان کو 100 فیصد کرپشن فری بنانے کیلئے پرعزم ہے ۔ نیب نے نوجوانوں کو بدعنوانی کے برے اثرات سے آگاہ کرنے کیلئے ملک بھر میں کردار سازی کی 55 ہزار سے زائد انجمنیں قائم کی ہیں۔ نیب کی 2018ء سے 2019ء کے اس عرصہ کے مقابلہ میں شکایات انکوائریوں اور انوسٹی گیشن کی تعداد دوگنا ہے جو کہ نیب کی احتساب سب کیلئے بلاامتیاز پالیسی پر اعتماد کا اظہار ہے ۔
نیب نے سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم نوازشریف،شاہد خاقان عباسی،راجہ پرویز اشرف سابق وزرائے اعلی شہبازشریف ،چوہدری پرویز الٰہی، منظوروٹو، پرویز خٹک ، موجودہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، جبکہ چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ساتھ ان کے رشتہ دار ، بیٹوں کے خلاف بھی تحقیقات کر رہا ہے ، اسی طرح متعدد صوبائی اور وفاقی وزراء ہیں یہاں تک کے وزیراعظم عمران خان کے اردگرد رہنے والے افراد بھی شامل ہیں جن میں وفاقی وزیر خسروبختیار ، پرویز خٹک اور دیگر اس وقت اہم عہدوں پر تعینات زلفی بخاری سمیت متعدد شخصیات ہیں جن کے کیسز نیب میں سال 2019میں چلتے رہے اور متعدد وزراء کے خلاف کیسز کا آغاز کیا۔ اور متعدد کو کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثہ جات میں گرفتار بھی کیا گیا ۔
پہلے نمبر پر نیب لاہور کی کارکردگی دیکھنے میں آئی۔ نیب لاہور میں کم و بیش 1 لاکھ افراد کوتحقیقاے کیلئے نیب لاہور طلب کیا گیا جس میں سے دوران تحقیقات 859ملزمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے جن پر عملدرآمد کیا گیا۔ ہائوسنگ سیکٹر میں نیب لاہور کی ریکوری میں 700 فیصد اضافہ ہوا، مجموعی طور پر کرپشن کیسز میں ریکوری 500 گناہ بڑھ گئی،17 سالوں کے دوران نیب لاہور کی ہائوسنگ سیکٹر میں ریکوری 45 کروڑ رہی اور 2017 سے تاحال 3 سالوں کے دوران 3 ارب 61کروڑ کی ریکوری کی گئی، سب سے زیادہ ریکوری 2019میں دیکھنے میں آئی، نیب لاہور کے قیام سے 2016 تک بیورو کی جانب سے مجموعی ریکوری سالانہ اوسطا65 کروڑ رہی جبکہ 2017 سے تاحال سالانا اوسط ریکوری 3 ارب 89 کروڑ تک پہنچ گئی ۔ اسی طرح ہائوسنگ سیکٹر ریفرنسز میں ریفرنسز کی صورت میں 16 سالوں کے دوران مجموعی طور پر 76 ارب مالیت کے ریفرنس احتساب عدالتوں میں دائر کئے گئے تاہم ڈی جی نیب لاہور کی سربراہی میں 3 سالوں میں ہی 46 ارب مالیت پر مشتمل ریفرنس دائر کئے جا چکے ہیں، ہائوسنگ سیکٹر میں دائر ریفرنسز کی مالیت میں 265% اضافہ دیکھنے میں رہا، ہائوسنگ سیکٹر ان ڈائریکٹ ریکوری 1999 سے 2016 تک محض 251ملین کی ان ڈائریکٹ ریکوری شمار ہوئی اسکے برمقابل 2017 سے تاحال 53 ارب کی ان ڈائریکٹ ریکوری کی گئی ہے ، ان ڈائریکٹ۔ریکوری کی مد میں17 ہزار گنا اضافہ رہاہے ، ہائوسنگ سیکٹر پلی بارگین میں ملزمان سے پلی بارگین کی مد میں 17 سالوں کے دوران صرف 350 ملین کی وصولی رہی، 2017 سے ابتک نیب لاہور 6 ارب 42 کروڑ کی بلین بارگین کر چکا ہے جو کہ ریکارڈ اضافہ ہے ، ہائوسنگ کیسز میں ہونیوالی پلی بارگین میں گزشتہ 3 سالوں کا مجموعی اضافہ 10 ہزار گنا رہا ہے ، ہائوسنگ سیکٹر ریکوری میں نیب لاہور ماضی کے 17 سالوں کی ہائوسنگ سے متعلقہ ریکوری 76 ارب کے مقابلے میں صرف 3 سالوں کے دوران 108 ارب کی مزید ریکوری ممکن بنا رہا ہے ، اس دوران صرف ہائوسنگ سیکٹر میں 54 ہزار متاثرین کو مکانات و پلاٹوں کے مالکانہ حقوق واپس دلوانا بھی نیب لاہور کے افسران کی انتھک محنت کا ضامن ہے ، نیب نے ایک نہیں متعدد شخصیات کے خلاف ایکشن لیا، یہاں تک کے شریف خاندان کے خلاف جہاں ریفرنسز فائل کئے وہاں ٹھوس شواہد عوام کے سامنے بھی آئے ،کہاں ٹی ٹی کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی تو کہاں منصوبوں میں من پسند افراد کو نوازنے کے الزامات بھی سامنے آئے ۔
سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کیخلاف جاری تحقیقات میں نیب لاہور نے 50کروڑ روپے کی رقم ملزم کے بینک اکاؤنٹس سے برآمد کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے حوالے کی۔ گلبرگ میں کروڑوں روپے مالیت کا چار(4) کنال پر محیط گھر بھی حکومت پنجاب کے حوالے کیا جارہا ہے جسے فروخت کرکے وصول ہونے والی مکمل رقم قومی خزانے میں جمع کروائی جائیگی۔ پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی کے سابق چیف فائنینشل آفیسر اکرام نوید سے نیب لاہور نے 1ارب مالیت کی جائیدادیں برآمد کروا کر حکومت پنجاب اور ایرا حکام کے حوالے کیں۔ نیب لاہور کی جانب سے ڈبل شاہ کیس میں ملزمان سے اربوں روپے کی تاریخی وصولی اور ہزاروں متاثرین میں برآمد کی گئی۔نیب لاہور نے ڈبل شاہ کیس کے متاثرین میں 19کروڑ35لاکھ روپے اور دوساری مرتبہ 36کروڑ روپے تقسیم کئے ۔ مجموعی طور پر نیب لاہور نے ڈبل شاہ کیس میں ہزاروں متاثرین کوایک ارب روپے کی خطیر رقم ملزمان سے برآمد کروا کر تقسیم کی جا چکی ہے ۔
ہاؤسنگ سیکٹر کے مقدمات میں پیش رفت ہوئی گذشتہ دو سالوں کے دوران نیب لاہور نے ہاؤسنگ سیکٹر کے 54,000 متاثرین کو انکے حقوق واپس دلوائے غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے کیسز میں گذشتہ دو سالوں کے دوران نیب لاہور نے 26ارب مالیت پر مشتمل 14بدعنوانی کے ریفرنسز معزز احتساب عدالتوں میں دائر کئے ہیں جبکہ نیب لاہور نے مجموعی طور پر دو سالوں کے دوران 31ارب روپے کی خطیر رقم ملزمان سے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروائی۔
نیب میں میگا کرپشن کے مقدمات جن میں شریف خاندان سے متعلق جہاں ایکشن لئے گئے جن میں سابق وزیر ِ اعلی پنجاب شہباز شریف،حمزہ شہباز، سلمان شہباز و دیگر کیخلاف مبینہ منی لانڈرنگ و آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی تحقیقات، چوہدری شوگر ملز کیس میں میاں نواز شریف، مریم نواز شریف، یوسف عباس اور عبدالعزیز کیخلاف مبینہ منی لانڈرنگ کی انکوائری، پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی کیس میں ملزم اکرام نوید کیخلاف مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی تحقیقات اور سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے داماد عمران علی یوسف کیخلاف تحقیقات، سابق وزیرِ خزا نہ ملزم اسحاق ڈار کیخلاف مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے کے کیس کی تحقیقات، سابق وزیرِ اعلی پنجاب میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کیخلاف رائیونڈ روڈ کی توسیع میں مبینہ طور پر اختیارات کے غیر قانونی استعمال کیخلاف جاری تحقیقات، میاں محمد نواز شریف کیخلاف ایل ڈی اے پلاٹوں کی مبینہ غیر قانونی تقسیم کے کیس کی انکوائری کے علاوہ دیگر میگا کرپشن کیسز پر ایکشن لئے گئے ہیں۔ شریف خاندان کے خلاف جو نیب کی رپورٹ سامنے آئی اس میں بتایا گیا کہ نوازشریف نے یوسف عباس اور مریم نواز کی شراکت داری سے 410ملین روپے کی منی لانڈرنگ کی،ملزمان نے جعلی گیارہ ملین کے شیئرز غیر ملکی شخص نصیر عبداللہ کو منتقل کرنے کا دعویٰ کیا، غیر ملکی کو ٹرانسفر کئے جانیوالے شیئرز درحقیقت نوازشریف کو 2014میں واپس کر دئیے گئے تھے ، نیب رپورٹ کے مطابق چوہدری شوگر ملز اور شمیم شوگر ملز میں1992سے لیکر 2016تک 2ہزار ملین کی انوسٹمنٹ کی گئی،سابق وزیراعظم نوازشریف نے 1کروڑ 55 لاکھ 20ہزار ڈالر کا قرض شوگر ملز میں ظاہر کیا گیا، نوازشریف نے قرضہ 1992میں آف شور کمپنی سے لیا گیا تھا، رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ نوازشریف نے جس کمپنی سے قرض لیا اس آف شور کمپنی کا اصل مالک ظاہر نہیں کیاگیا،چوہدری شوگر مل کے آغاز کے لئے شریف فیملی نے اپنی ہی 9کمپنیوں سے قرض لیا،شریف فیملی نے 20کروڑ 95لاکھ کا قرض 9کمپنیوں سے لیا، چوہدری شوگر مل کے قیام کے لئے ایک کروڑ 53لاکھ ڈالر کا قرض بھی حاصل کیا گیا،نوازشریف 1992میں 43ملین شیئر کے مالک تھے ، نوازشریف کے پاس اتنے شیئر 1992میں کہاں سے آئے یہ نہیں بتایا گیا، نوازشریف کے جب آثاثے بڑھے اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ ، وزیر خزانہ بھی رہے ۔ مریم نواز سے 3 غیر ملکی کمپنیوں کی جانب سے بھوائے گئے شئیرز کے متعلق پوچھا گیا اور ٹرانسفر ڈیڈ مانگی گئی ۔مریم نے کہا انکے پاس ٹرانسفر ڈیڈ نہیں ہے ، مریم نواز نے موقف بدلتے ہوئے کہا شاید یہ ٹرانسفر ڈیڈ پرانے ریکارڈ میں موجود ہوں۔چودھری شوگر مل کا بینک اکاونٹس منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے ۔عبدالعزیز عباس کے اکاونٹ میں 3 دنوں کے دوران 10 کروڑ کی خطیر رقم ٹرانسفر کی گئی،25 اکتوبر 2013 کو 2 ٹرانزیکشن کے زریعے 5 کروڑ کی رقم منتقل کی گئی، 23 اکتوبر 2013 کو ایک ہی دن میں 5 ٹرانزیکشن کے زریعے 5 کروڑ کی رقوم منتقل ہوئیں، مریم نواز اس رقم سے متعلق تسلی بخش جواب نہیں دے سکیں،مریم نواز نے کہا کہ انکی فیملی کے دوبئی میں موجود بزنس مینوں سے کاروباری مراسم ہیں، دوبئی کی کاروباری شخصیات سے بزنس کے سلسلہ میں لین دین چلتا رہتا تھا،جبکہ رپورٹ کے مطابق یوسف عباس کے اکاونٹ میں 1 سال کے دوران 33 کروڑ کی رقم منتقل ہوئی، یوسف عباس کو یہ خطیر رقم 2010،11 میں 10 ٹرانزیکشن کے زریعے منتقل ہوئیں، یوسف عباس نے دوران تفتیش لاعملی کا اظہار کرتے ہوئے کمپنی سیکرٹری سے مشاورت کے لیے ملاقات کا کہا،اوریوسف عباس نے کہا کہ کمپنی سیکرٹری سے مل کر اس رقم سے متعلق بتا سکتا ہو،مریم نواز اور یوسف عباس سے سیل ڈیڈ سمیت دیگر پوائنٹس پر تفتیش بھی کی گئی ہے ۔
آصف علی زردار ی اور دیگر کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس کیس سے متعلق مجموعی طور پر 26 انکوائریز اور انویسٹی گیشنز کی گئیں ہیں، نیب رپورٹ کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق انکوائریز سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کی گئیں اور 5 انکوائریز اور 3 انویسٹی گیشنز میں آصف زرداری کا کردار سامنے آیا ہے ۔نیب رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آصف زرداری کے اب تک صرف ایک کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظرکی طرف جائیں تو بہت انکشافات سامنے آتے ہیں یعنی منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔ایف آئی اے نے ایک اکاؤنٹ سے مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے جن سے مشکوک منتقلیاں کی گئیں۔جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی تھی پھر انہیں نیب نے ایکشن لیتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا ، اس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی جارہی ہیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا جب کہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔نیب کو ملنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ 29 مشکوک اکاؤنٹس کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ایک اکاؤنٹ جو اے ون انٹرنیشل کے نام سے موجود تھا جس کا مالک طارق سلطان نامی شخص کو ظاہر کیا گیا تھا، یہ اکاؤنٹ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ 35 ارب کی مزید مشکوک منتقلی کی نشاندہی کی ہے ، جس سے مستفید ہونے والوں میں متحدہ عرب امارات کے نصیر عبداللہ لوطہ گروپ کے سربراہ، آصف علی زرداری اور ان کی بہن کا گروپ اور آصف زرداری کے قریبی دوست انور مجید شامل ہیں۔اور نصیر عبداللہ لوطہ چیئرمین سمٹ بینک کو دو ارب 49 کروڑ، انصاری شگر ملز جس کے مالک انور مجید اور علی کمال مجید ہیں کو سات کروڑ 37 لاکھ، اومنی پولیمرز پیکجز کے عبدالغنی مجید اور کمال مجید کو 50 لاکھ، پاک ایتھنول کے مصطفیٰ ذوالقرنین مجید اور عبدالغنی مجید کو ایک کروڑ 50 لاکھ، چمبڑ شگر ملز کے مالک انور مجید اور نمر مجید کو 20 کروڑ، ایگرو فارمز ٹھٹہ کے مالک انور مجید اور نازلی مجید کو 57 لاکھ، زرداری گروپ جس کے مالک آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر ہیں کو ایک کروڑ، پارتھی نون کے قابل خان نوری کو پانچ لاکھ، ایون انٹرنیشنل کو پانچ لاکھ 76 ہزار، لکی انٹرنیشنل کو دو کروڑ 72 لاکھ، لاجسٹک ٹریڈنگ کو 14 کروڑ 50 لاکھ، رائل انٹرنیشنل کو 28 کروڑ اور عمیر ایسوسی ایٹس کو 80 کروڑ کی منتقلی ہوئی۔ حسین لوائی پر 29 جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے میں معاونت کرنے کا الزام ہے ، جن کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری سمیت 13 کمپنیوں کو اربوں روپوں کی مشکوک منتقلی کی گئی ہے ۔ 29 مشکوک اکاؤنٹس کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ایک اکاؤنٹ جو اے ون انٹرنیشنل کے نام سے موجود تھا جس کا مالک طارق سلطان نامی شخص کو ظاہر کیا گیا تھا، یہ اکاؤنٹ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا گیا، اکاونٹ مالک طارق سلطان نے اس اکاونٹ سے لاتعلقی کا اظہار کیا، ان کے انکار کے بعد ہینڈ رائٹنگ اور دستخط کے حوالے سے موقف لیا گیا جس میں جعلی دستخط ثابت ہوئے ۔ایف آئی اے کے مطابق اے ون انٹرینشل کے مالک طارق سلطان نے انکشاف کیا کہ اس وقت کی آپریشنل مینیجر کرن امان نے جعلی اکاونٹ کی تصدیق کی لیکن اس وقت کی کارپوریٹ رلشن شپ افسر نورین سلطان اور دیگر افسران نے کوئی کارروائی نہیں کی باوجود اس کے اکاؤنٹس کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا تھا کہ اکاونٹ کا تعلق اومنی گروپ سے ہے ۔کرن امان نے انکشاف کیا کہ دستاویزات کارپوریٹ ڈیپارٹمنٹ کو بھیجے گئے جہاں طلحہ رضا، کارپوریٹ ہیڈ نے واپس بھیج دیے اور حسین لوائی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی ہدایت کے تحت اکاؤنٹ کھولا جائے ۔تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ 10 ماہ کے قلیل مدت میں ساڑھے چار ارب روپے اس اکاؤنٹ میں جمع ہوئے اور دیگر اکاؤنٹس میں ان کی منتقلی کی گئی۔یہ رقم جمع کرانے والوں میں سجاول ایگرو فارمز پرائیوٹ لمیٹیڈ (50 کروڑ 50 لاکھ)، ٹنڈو الہ یار شگرملز (23کروڑ 84 لاکھ )، اومنی پرائیوٹ لمیٹیڈ (5 کروڑ)، ایگرو فارمز ٹھٹہ (ایک کروڑ 70 لاکھ)، الفا ژولو کو پرائیوٹ لمیٹیڈ( 2 کروڑ 25 لاکھ)، حاجی مرید اکبر بینکر( 2 کروڑ)، شیر محمد مغیری اینڈ کو کانٹریکٹر (5 کروڑ)، سردار محمد اشرف ڈی بلوچ پرائیوٹ لمیٹیڈ کانٹریکٹر( 10 کروڑ)، ایون انٹرنیشنل (18 کروڑ 45 لاکھ)، لکی انٹرنیشنل (30 کروڑ 50 لاکھ)، لاجسٹک ٹریڈنگ (14 کروڑ 50 لاکھ)، اقبال میٹلز (15 کروڑ 63 لاکھ)، رائل انٹرنیشنل (18 کروڑ 50 لاکھ)، عمیر ایسو سی ایٹس (58 کروڑ 12 لاکھ) اور دیگر شامل تھے ۔ رپورٹ میں 4 ارب 14 کروڑ کی مزید مشکوک منتقلی کی نشاندھی کی ہے ، جس سے مستفید ہونے والوں میں متحدہ عرب امارات کے نصیر عبداللہ لوطہ گروپ کے سربراہ، آصف علی زرداری اور ان کی بہن کا گروپ اور آصف زرداری کے قریبی دوست انور مجید شامل ہیں۔یہ بھی الزام عائد ہوا کہ نصیر عبداللہ لوطہ چیئرمین سمٹ بینک کو دو ارب 49 کروڑ، انصاری شگر ملز جس کے مالک انور مجید اور علی کمال مجید ہیں کو 7 کروڑ 37 لاکھ، اومنی پولیمرز پیکجز کے عبدالغنی مجید اور کمال مجید کو 50 لاکھ، پاک اتھنول کے مصطفیٰ ذوالقرنین مجید اور عبدالغنی مجید کو ایک کروڑ 50 لاکھ، چمبڑ شگر ملز کے مالک انور مجید اور نمر مجید کو 20 کروڑ، ایگرو فارمز ٹھٹہ کے مالک انور مجید اور نازلی مجید کو 57 لاکھ، زرداری گروپ جس کے مالک آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر ہیں کو ایک کروڑ، پارتھی نون کے قابل خان نوری کو پانچ لاکھ، ایون انٹرنیشنل کو پانچ لاکھ 76 ہزار، لکی انٹرنیشنل کو دو کروڑ 72 لاکھ، لاجسٹک ٹریڈنگ کو 14 کروڑ 50 لاکھ، رائل انٹرنیشنل کو 28 کروڑ اور عمیر ایسو سی ایٹس کو 80 کروڑ کی منتقلی ہوئی۔ایک سرکاری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ جعلی اکاؤنٹس کھولنا اور غیر قانونی رقومات جمع کرانا اور مختلف اکاؤنٹس میں مشکوک انداز میں منتقلی، پاکستان اسٹیٹ بینک کی قوانین کے مطابق منی لانڈنگ کے زمرے میں آتی ہے ۔نصیر عبداللہ لوطہ چیئرمین سمٹ بینک جو پاکستان سے باہر ہیں، حسین لوائی جو اس وقت سمٹ بینک کے صدر اور موجودہ وقت وائس چیئرمین ہیں نے مرکزی کردار ادا کیا۔اورانور مجید، عبدالغنی مجید اور ان کے اومنی گروپس کی مختلف کمپنیوں نے جعلی اکاونٹس کھولے اور طحہ رضا اور حسین لوائی کے ذریعے اربوں رپوں کی ہیرا پھیری کی۔ تمام فریقین کو سمن جاری کر کے انفرادی اور کمپنیوں کو رقومات کی منتقلی اور وصولی کے حوالے سے موقف پیش کرنے کی ہدایت جاری کی لیکن کوئی بھی حاضر نہیں ہوا۔ملزم انور مجید ولد عبدالمجید، عبدلغنی مجید والد انور مجید، اسلم مسعود ولد مسعود اللہ ملک، محمد عارف خان، بینک افسران نورین سلطان، کرن امان، عدیل شاہ رشیدی، طلحہ ولد نقی رضا، حسین لوائی ولد حاجی موسیٰ اور نصیر عبداللہ چیئرمین سمٹ بینک پر منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا،اورانور مجید پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں، ڈاکٹر عاصم حسین کے بعد تحقیقاتی اداروں نے ان کا گھیراؤ تنگ کیا تھا، جبکہ گزشتہ سال سندھ میں گنے کے کاشتکاروں اور شگر ملزمالکان میں کشیدگی کے وقت بھی انور مجید کا نام سامنے آیا تھا، سندھ میں شگر ملز کی اکثریت کے مالک انور مجید ہیں جبکہ آصف علی زرداری کا گروپ بھی بعض ملز کا مالک ہے ، کاشتکاروں کا الزام تھا کہ حکومت ملز مان کو فائدہ پہنچا رہی ہے ۔ حکومت سندھ نے جب بیمار صنعتوں کو مالی مرعات فراہم کی تو پچاس فیصد صنعتیں انور مجید کی تھیں۔تحقیقات کا دائرہ کار مزید وسیع ہوتا گیا تو مزید 33 مشکوک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا ہے جن سے اربوں روپے بیرون ممالک منتقل کیے گئے ۔اب تک کی تحقیقات میں 335سے زائد ملوث افراد سامنے آئے ہیں اور تمام افراد ان اکاؤنٹس میں ترسیلات کرتے رہے ۔ان کے جعلی اکاؤنٹس کے ساتھ 210 کمپنیوں کے روابط رکھے گئے ہیں۔ جبکہ 47 ایسی کمپنیوں کا سراغ لگایا گیا ہے جن کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے ۔ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے بتایا کہ یہ ساڑھے 4 ارب روپے کی ٹرانزیکشن کا معاملہ ہے ، اس حوالے سے تمام فہرست مہیا کر دی گئی ہے کہ کتنی رقم اکاؤنٹ میں آئی اور کتنی استعمال ہوئی۔ اے ون انٹرنیشنل اور عمیر ایسوسی ایٹس سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی، ان اکاؤنٹس کے ساتھ زرداری گروپ اور پارتھینون کمپنیوں کی ٹرانزیکشن ہوئی۔’نیب کے مطابق ایف آئی اے نے حسین لوائی اور ان کے ساتھی طلحہ رضا کو گذشتہ برس گرفتار کیا۔ ان پر 29 جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے میں معاونت کرنے کا الزام ہے ، جن کے ذریعے مبینہ طور پر آصف زرداری سمیت 13 کمپنیوں کو اربوں روپوں کی مشکوک منتقلی کی گئی۔ آئی پی پیزسے متعلقہ 300 ارب کی مبینہ کرپشن کیس میں 8 ارب مالیت کی مبینہ کرپشن کے الزام میں سابق ڈی جی نیپرا ملزم سید انصاف احمد گرفتار کیا گیا، ملزم سید انصاف احمد نے دانستہ بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ نشاط چونیاں پاور لمیٹڈ (IPP) سے ٹھیکہ جات میں بجلی نرخ انتہائی مہنگے داموں مقرر کئے جو حکومتی خزانے کو 8 ارب کے نقصان کا موجب بنا تھا، نشاط چونیاں پاور لمیٹڈ کیجانب سے 2010میں 200 میگا واٹ پر مشتمل پاور پلانٹ کی تنصیب کی گئی تھی۔
چیئر مین نیب جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ نیب نے کسی کا فیس نہیں بلکہ کیس دیکھ کر اپنی تحقیقات کا قانون اور شواہد کی بنیاد پر آغاز کرتا ہے ۔ جن کیسز میں شہادتیں موجود ہیں وہاں ٹھوس اورمضبوط کیس بنائیں گے ۔انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے افسران ٹیم ورک کے تحت کام کریں یوں کہ نیب میں کیس کی تحقیقات کیلئے کمبائینڈ انوسیٹی گیشن ٹیم(CIT) کے نظام کو اسی لئے متعارف کروایا گیاہے۔ جسٹس (ر)جاوید اقبال نے نیب افسران سے کہا کہ وہ کسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر اپنے فرائض آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سر انجام دیں۔ انہوں نے تحقیقاتی افسران کو ہدایت کی کہ تمام مقدمات کو ٹھوس شواہد اور آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مکمل کیا جائے ہر شخص کی عزت ِ نفس کا خیال کیا جائے ۔ فرائض کی انجام دہی میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائیگی۔انہوں نے کہا کہ نیب نے 71ارب کی خطیر رقم قومی خزانے میں جمع کروائی ۔
بشکریہ روزنامہ دنیا.








