بھائی پر منشیات فروشی کا الزام، سعیدغنی نے دیا جواب
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وزیر اطلاعات ومحنت سندھ سعید غنی نے میڈیا پر چلنے والی پولیس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھ پر اورمیرے بھائی پر منشیات فروشوں کی پشت پناہی جیسا گھناﺅنا الزام بے بنیاد ہے میں دعوی کرتا ہوں کہ اپنے حلقے کے کسی فرد کی بھی پولیس سے آئی جی تک کسی کی سفارش کی ہو تو میں قصور وار ہوں گا میں وزیر اعلی سندھ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ کسی اچھی شہرت کے حامل افسر سے ان الزامات کی تحقیقات کروائیں،

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر ان کے ہمراہ راشد ربانی اوروقارمہدی بھی موجود تھے سعید غنی نے کہا کہ ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں اگر ڈرتے ہوتے تو میں ان کے خلاف نہیں بولتامیری ذات پر لگنے والے الزامات پر لازم ہے کہ میں ان الزامات کی وضاحت کروں ، لگتا ہے کہ لوگ پولیس پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں دعا منگی کیس میں بھی دعا منگی کے اہل خانہ پولیس سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے جس پر وزیر اعلی نے فیملی سے ملکر ان کو راضی کیا تھا انہوں نے کہا کہ پولیس کے چند افسران جس انداز سے کام کررہے ہیں ان کو اس طرح کام نہیں کرنا چاہیے ،اس وقت پولیس افسران خبریں چلارہے ہیں پولیس افسران وکلاءاور اپوزیشن سے مل رہے ہیں اوراس وقت پولیس سیاسی پارٹی بنی ہوئی ہے اورنیب جیسا کردار ادا کررہی ہے جبکہ آئی جی تھرڈ پارٹی بن گئے ہےںان رویوں سے نہ نوکریاں ہوسکتی ہیں نہ ان کا کیریئر بن سکتا ہے دو چار افسران کا گروپ ہے جو اس طرح کے کام کر رہا ہے جس کی صرف ایک وجہ ہے کہ سندھ صوبہ سوتیلا بنا ہوا ہے پنجاب میں کہا جاتا ہے بہترین افسر لگایا ہے لیکن اسے تین چار ماہ بعد نکال دیا جاتا ہے

سعید غنی نے کہا کہ دوہزاراٹھارہ میں ایک انگریزی اخبارمیں رپورٹ چھپی تھی جس میںچنیسرگوٹھ میں سیاستدانوں پر منشیات فروشوں کی سرپرستی کا الزام لگایا گیا تھا اس وقت میں نے اس وقت کے آئی جی اے ڈی خواجہ کو خط لکھا تھا کہ حقائق کیا ہیں اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن اس وقت لکھے گئے خط کا جواب نہیں دیا گیا چھوٹے بھائی فرحان غنی کو بلا کر کہا گیا کہ پولیس چوکی پر فرنیچرلیکردیں اورمخبری کریں لیکن میرے بھائی نے یہ مطالبہ رد کردیا اس وقت جرائم پیشہ افراد کی شکایت ڈی آئی جی سلطان خواجہ کو کی گئی اس وقت سہیل انورسیال وزیرداخلہ تھے شکایت پر کارروائی کی گئی پر ایک گناہ گار اوردس بے گناہ اٹھائے گئے تاکہ سیاسی پریشربڑھے اور ڈاکٹررضوان نے ان لوگوں کو بھی اٹھایا جو جرائم چھوڑ چکے تھے ایم کیوایم کے سابق عہدیدارفیصل لودھی کے گھرپر بھی چھاپے مارے گئے اس وقت پی پی پی کے ضلعی صدراقبال ساند نے ڈاکٹررضوان سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگران کو گرفتار کرنا ہے تو میں پیش ہوں گھروں پر چھاپے کیوں مارے جارہے ہیں اس وقت ڈاکٹررضوان نے ایک شخص کو گرفتارکیا اور اس کاماروائے عدالت قتل کیا گیاا س کے قتل سے پہلے اس کی ریکارڈنگ بھی کی گئی اورریکاڈنگ اقبال ساند کو سنائی گئی میں نے اس وقت کے آئی جی اے ڈی خواجہ کو بھی حقائق بتائے جس پر اے ڈی خواجہ نے ڈاکٹررضوان کو فون کیا اورکہا کہ بیٹا آپ نئے ہو اور یہ کیا کررہے ہو،

سعید غنی نے مزید کہا کہ میڈیا پر چلنے والی اس رپورٹ میں کچھ جرائم پیشہ افراد کے نام بھی ہیں اورآئی جی سندھ کوہٹانے کے فیصلے کے بعد یہ رپورٹ بنائی گئی امتیاز شیخ کے خلاف رپورٹ بھی 16 جنوری کو بنی ہوئی لگ رہی ہے جب کہ اس میں13اتاریخ لکھی گئی سعید غنی نے کہا کہ مجھے بھی معلوم ہے کہ ڈاکٹر رضوان کیساتھ ایک ٹیم ہے جس کے ذریعے سارے دونمبرکام کروائے جاتے ہیں، اس لیے میرا مطالبہ ہے کہ جہاں جہاں ڈاکٹررضوان تعینات رہا ہے وہاں کی تحقیقات کروائی جائے تا کہ پتا چلے کہ اس نے وہاں کیسے کیسے کارنامے کئے ہیں ڈاکٹررضوان اورمیرے اثاثوں کی تحقیقات کروائی جائے تو سب حقیقت سامنے آجا ئے گی الیکشن کے دوران میرے حامیوں کو بے گناہ گرفتارکیا گیا انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رضوان ایک سال میرے حلقے میں تعینات رہے میں اپنے حلقے میں کسی افسر کو نہیں جانتا اور ایس ایچ او کا پتہ نہیںمیں نے تو افسران کی فہرست بھی اب منگوائی ہے میری درخواست ہے کہ ایسے افسر کے خلاف انکوائری اور ویری فکیشن ہونی چاہیئے میں ایسے لوگوں کو چھوڑتا نہیں ہوں چاہے اس کے لیے عدالت جانا پڑے اور انکوائری کرانا پڑے ضرور کرائی جائے گی۔

Shares: