پاکستان ،اسرائیل کب سے خفیہ تعلقات ہیں؟ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کا خصوصی انٹرویو مبشر لقمان کے ہمراہ

0
61

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ آج سے 14 سال پہلے ایک انٹرویو کیا اسوقت کے وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری کا ، اسوقت انہوں نے ایک جملہ بولا جو آج بھی مجھے یاد ہے، اس جملے کی وجہ سے میری زندگی ، سوچ میں تبدیلی آئی، آج میاں خورشید قصوری میرے ساتھ ہیں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ جب آپ کی تصویریں آ رہی تھیں آپ نے اسرائیلی وزیر خارجہ سے ہاتھ ملایا تھا تو یہ بتائیں کہ پاکستان کے انکے ساتھ باضابطہ رابطے تھے، ہونے جا رہے تھے یا اتفاق کی بات ہے جس پر میاں خورشید محمود قصوری کا کہنا تھا کہ نہیں یہ رابطے جو ہیں جب سے پاکستان اور اسرائیل معرض وجود میں آئے، بیک چینل پر رہے ہین اور 50 کے بعد ایمبسیڈر لیول پر کبھی نیو یارک، کبھی لندن،پیرس رابطہ رہا ہے لیکن جو پبلک رابطہ پہلا ہوا وہ ترکی کے صدر اردگان کے ذریعے کے وجہ سے ہوا تھا، استنبول میں اسرائیل کے ڈپٹی پرائم منسٹر سے ملاقات کروائی تھی اور سیکرٹ کروائی تھی،ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس پر بحث شروع ہو، جب سے پاکستان بنا رابطے ہیں، بطور فارن منسٹر لیول میرا رابطہ تھا

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ بڑا شور مچ رہا ہے کہ آرمی چیف کو پروٹوکول نہیں دیا، انڈین میڈیا اس پر واویلا کر رہا ہے،یہ میٹنگ کیسے ہوتی ہیں، جس پر میاں خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ انڈین میڈیا کا نان سینس ہے جو وہ کہہ رہے ہیں، آرمی چیف کا استقبال کیا گیا، چیئرمین جوائنت چیفس آف سٹاف ، ڈپٹی ڈیفنس منسٹر خالد بن سلمان سے ملاقات ہوئی،یہ ایک ورکنگ وزٹ تھا، وہ کیا کہہ رہے ہیں کس لیول پر ریسیو کیا جانا چاہئے، پروٹوکول تو یہی ہے، آرمی چیف کا یہی ہے، کئی ملکوں میں حالات بدل جاتے ہیں لیکن پروٹوکول کی کوئی وائلیشن نہیں ہے، فیصلے پہلے ہوتے ہیں کہ کون ریسیو کرے گا، کیا بات ہو گی، نہیں تو وزٹ ہی نہ ہوتا، اگر انکو یہ خیال ہوتا کہ اس دورے کا فائدہ نہین تو وزٹ نہ ہوتا، یہ صرف باتیں بنانے والی بات ہے

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی نے جو بیان دیا سعودی عرب کے حوالہ سے ،آپ خود فارن منسٹر رہے ہیں، کس نظر سے دیکھتے ہین جس پر خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ جب ان کا بیان آیا تھا تو میرا خیال تھا کہ فارن منسٹر ایسا بیان نہین دے سکتے جب تک انکی کسی سے بات نہ ہوئی ہو، انکی بات وزیراعظم سے ہوئی ہو گی، اگر بات نہیں ہوئی تو یہ حیران کن ہے، اس لیول پر بات ہوتی ہے تو یہ ناممکن ہے، خود بات کی تو پھر بڑی عجیب بات ہے، اسکے بعد میں نے لوگوں سے سنا کہ اس میں دو رائے ہین، میں اس سے زیادہ کھل کر بات نہیں کر سکتا

مبشر لقمان نے سوال کیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کا مستقبل اب کیا دیکھ رہے ہیں جس پر خورشید محمود قصوری کا کہنا تھا کہ دو قوموں کا مستقبل اپنے انٹرسٹ سے جڑا ہوتا ہے، پاکستان کا انٹرسٹ واضح ہے ایک روحانی لیول پر ہے ، ساتھ نہین بھولنا چاہئے،3 ملین پاکستانی سعودی عرب مین کام کرتے ہیں،سب چیزوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے، وہ ہمارے ہر مشکل میں کام آئے جب میں وزیر خارجہ تھا تو وہ آئل کی فیلسٹی دیتے رہے ہیں، جب ساری دنیا پاکستان کا ساتھ چھوڑ گئی تو انہوں نے ساتھ دیا، نیوکلیر میں ساتھ دیا، زلزلہ آیا تو سعودی عرب نے بہت زیادہ امداد کی، ہر موقع پر سعودی عرب ہمارے کام آیا، میری رائے کچھ یوں ہے کہ ہمیں اپنے ویوز بتا دیئے، ہر ملک کی خارجہ پالیسی اسکے اپنے انٹرسٹ پر ہوتی ہے، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک حد سے زیادہ وہ نہیں جائیں گے جب سے کنٹریکٹ گروپ بنا ہے ہر وقت او آئی سی کی طرف سے پاکستان کے حق میں بیان آتا ہے،ہائی لیول ممکن ہے یا نہیں اسکا پتہ کریں اگر ممکن نہین تو ہر ملک اپنے مفادات دیکھتا ہے ہمیں بولنے کی ضرورت نہین، جب یمن کا موقع تھا پاکستان نے فوج نہ بھیجنے کا درست فیصلہ کیا لیکن ضرورت سے زیادہ باتیں کی گئیں، اب میں کیا کہوں ،بڑا سخت جواب آیا یو اے ای کی طرف سے ، ہم نے کہا نیوٹرل ہیں، انہوں نے مودی کو ریسپشن دبئی نے دیا جو دبئی والے کسی کو دیتے نہیں، سٹیڈیم انہوں نے بھر دیا تھا، ہم نے اپنی فارن پالیسی کنڈکٹ اس بنیاد پر کرنی ہے کہ کسی کو موقع نہ ملے،

خورشید محمود قصوری کا مزید کہنا تھا کہ اب آرمی چیف کے دورے پر انڈین میڈیا پروپیگنڈہ کر رہا ہے،حالانکہ انکو پروٹوکول دیا گیا، گارڈ آف آنر دیا گیا، سعودی عرب کو اس سے زیادہ پریس نہ کریں، بجائے اس کو آن کرنے کے میں کھل کر بات کر رہا ہوں پھر ہمیں نہیں امپریشن کرنا چاہئے، ہمیں وہ کرنا چاہئے جو ہمارے مفاد مین ہے، ہم نے دیکھ لیا،کشمیر پر جنگ سے بات نہیں بنی، 5 بار جنگ ہوئی، دس بار جنگ کے قریب تھے، اس سے یہ حل نہیں ہوا، دوسرے طریقوں سے بھی حل نہیں ہوا، پھر اس نے بات چیت سے ہونا ہے، مودی نے تو راستہ کوئی نہین چھوڑا، انہوں نے راستہ بند کر دیا، مودی کوئی نوح کی زندگی لے کر آئے ہیں، ہمیں اپنی پالیسی پر گامزن رہنا چاہئے، بات چیت کے علاوہ کشمیر کا کوئی حل نہین واجپائی،منموہن سنگھ سے بات میں نے کی، انکو ہم سے کوئی عشق نہین تھا، انکو پتہ تھا مسئلہ کشمیر پاکستان کے بغیر حل نہیں ہو سکتا، اگر مودی کو کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تو اسکے بعد آنے والی حکومتوں کو سمجھ آ جائے گی،سعودی عرب اور وہ دوست جنہوں نے ہماری مدد کی، ان سے زیادہ توقع نہین کر نی چاہئے جو کر سکتے ہیں وہ کریں ، لیکن بولیں نہیں

Leave a reply