باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ ایک انٹرویو دکھانے لگے ہیں ،جو کمزور دل افراد نہ دیکھیں، ہم اس کو اسی طرح آن ایئر کر رہے ہیں،ہم ایڈٹ کر سکتے ہیں، بیپ لگا سکتے ہیں ،لیکن پھر اس کی سپرٹ جو انٹرویو کی ہے وہ ہرٹ ہو جائے گی، کمزور دل افراد اس کو مت دیکھیں،

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ میرے آج خاص درخواست پر مہمان آئے ہیں، کسی تعارف کے مہمان نہیں لیکن بہت کم ٹی وی پر آٹے ہیں، عابد باکسر صاحب، پہلے دبئی میں تھے ، تب ان کا انٹرویو کیا تھا،پاکستان آ گئے ہیں اب کافی عرصے سے، عابد باکسر کو لوگ مختلف طریقوں سے جانتے ہیں، جو انکو اچھی طرح جانتے ہیں وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں، یہ سٹرانگ پرسنلٹی والے کے ساتھ نقصان ہوتا ہے،یہ ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے، جو ہمیں پسند کرتا ہے وہ دل سے کرتا ہے اور جو پسند نہیں کرتا وہ بھی دل سے نہیں کرتا

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ حالیہ جو واقعہ ہوا ،اور خاص طور پر ایک تو واقعہ ہو گیا، چوری ، ڈکیتی کا، یہ ایسا جرم ہے جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا،ایک تو ہو جاتے ہیں، انکو شائد اس طرح لوگ ڈسکس نہ کریں لیکن جب بچوں کے سامنے ایسا ہوا تو ہر ماں باپ کانپ گیا، جس کی بہنیں، بیٹیاں ہوں اور انکی حرمت کا پاس ہو انکی نیند اڑ جاتی ہے، اس کیس کے حوالہ سے چند سوال پوچھنے ہیں

مبشر لقمان نے سوال کیا کہ میں ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا کہ بیچاری مظلوم فیملی ہے ان کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کرنا چاہتا ،ایسے الفاظ میں بولنا نہیں چاہ رہا،لیکن سی سی پی او کا جو رویہ دیکھا، اگر سی سی پی او سامنے آجائے تو گارنٹی نہیں دے سکتا کیا ہو گا، کیا پولیس والے اتنے مادر پدر آزاد ہو گئے ہیں کہ ان کو لوگوں کی عزتوں کا خیال نہین ، جس پر عابد باکسر کا کہنا تھا کہ میں انکے ساتھ رہا نہیں اسلئے کوئی ایسے کمنٹ نہیں کرنا چاہتا جو میرے علم میں نہیں، ایک لفظ ہے،میرے والد صاحب ہیں، ایک بات ہے میری والدہ کے شوہر ہیں،انداز بیان سے بات بہت دور چلی جاتی ہے، وہ سخت بول گئے، اچھے طریقے سے سمجھایا جا سکتا تھا، میں اس پر اتنا ہی کمنٹس دے سکتا ہوں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ہم 17 سال سے انوسٹی گیٹو شو کرر ہے ہیں،ہم بھی بڑے بڑے کن ٹٹوں کو ملتے ہیں، اپنے جیسوں کو بھی ملتے ہیں، تفتیش کرنی ہے تو کہاں سے شروع کرنی ہے، میری کتاب میں ون فائیو کی کال سے تفتیش بنتی ہے، انکو کیوں نہیں شامل کیا گیا جس پر عابد باکسر کا کہنا تھا کہ میں تھوڑا سا اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہوں،ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ ون فائیو نے کال سنی یا نہیں، ڈولفن گئی یا نہیں، اب ہم نے پورا زور لگانا ہے کہ پولیس زور لگائے اور ملزموں کو پکڑے، سب سے پہلے ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ انسان ہیں یا نہیں، یہ انسان نہیں ہیں، آپ آئے روز دیکھتے ہیں کارپوریشن والے کتے مار رہے ہوتے ہیں،وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں،لیکن اپنی قوم ، فیملی کی فلاح کے لئے بے زبان کو مارتے ہیں، جو انسان نہیں اور انسانیت کے لئے ناسور بن گیا ،اس کے لئے قانون مین لچک ہونی چاہئے، میں یہ نہیں کہتا کہ لاقانونیت ہونی چاہئے

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ زینب کے قاتل کو پھانسی اسلئے ہوئی کہ وہ قتل ہو گئی تھی، ریپسٹ کو تو سزا ہوتی ہی نہیں، وہ باہر آ جاتا ہے اور پھر شروع ہو جاتا ہے جس پر عابد باکسر کا کہنا تھا کہ اگر میرٹ پر بالکل فری اس کی تفتیش اور عدالت میں کیس گیا تو یہ ملزمان بری ہو جائیں گے، میں ثابت کر دیتا ہوں، اصل جو ظلم ہوا اس فیملی کے ساتھ وہ فیملی دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی، وہ میری بہن ہے، بیٹی ہے،جب وہ عدالت آئے گی تو کئی لوگ میرے جیسے سیلفی لینے پہنچ جائیں گے،ابھی اس کو چند لوگوں نے دیکھا ہے، ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہر پاکستانی اسکی شکل سے شناخت کر لے گا، پھر وہ جہاں جائے گی اسکو عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جائے گا، اسکے ساتھ اسکی ساری فیملی مر گئی، اب اسکو ڈرایا جائے گا، وہ واپس فرانس چلی جائے گی،جب شہادت نہیں دے گی تو ملزمان بری ہو جائیں گے،

عابد باکسر کا مزید کہنا تھا کہ میری آئی جی پنجاب سے درخواست ہے کہ تھوڑا سا قانون میں کچھ کریں، ایک مثال دینے لگا ہوں، عامر ذوالفقار ایس ایس پی لاہور تھے تو ایک باپ نے اپنی تینوں بیٹیوں کو ذبح کر دیا، ایک کو ذبح کیا تو دو چھپ گئیں، وہ گرفتار ہو گیا ماڈل ٹاؤن تھانے میں عامر ذوالفقار صاحب آئے تو انہوں نے پوچھا تو ملزم نے جواب دیا کہ مجھے پیر صاحب کا حکم تھا،وہاں پر ایک راجہ ندیم کمانڈو تھا ،اس نے پسٹل نکالا روتے ہوئے اور پوری گولیاں اسکے سینے میں ڈال دیں، کیونکہ وہ ایک بیٹی کا باپ تھا، اسوقت عامر ذوالفقار کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے جب وہ کہہ رہا تھا کہ پیر صاحب کے کہنے پر میں نے تینوں بیٹیاں ذبح کر دیں، جس کے بعد ندیم کمانڈو جیل چلا گیا، محکمے نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا،چند اسکے دوست ایلیٹ والے رہ گئے وہ میرے پاس آئے، میں ایک وفد بنا کر انکے گھر گیا اور درخواست کی کہ اس نے جذباتی ہو کر یہ قدم اٹھایا، آپ کی تین بیٹیاں مر گئی ہیں،اسنے ذبح کر دی ہیں، اس نے اس کو معاف کیا اور وہ باہر آیا، مین کسی کو اکسا نہیں آ رہا کہ لاقانونیت کریں، کسی وقت ایسا ٹائم آ جاتا ہے، پولیس والے بھی انسان ہیں، تو میری درخواست ہے کہ ملزمان کوئی بھی ہیں ،یہ انسان نہیں ہیں، فیصلہ آپ نے کرنا ہے، آئی جی نے کہا کہ میں سات بہنوں کا بھائی ہے، انصاف کروں گا، انعام غنی صاحب انصاف نظر آنا چاہئے،

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ انصاف تو پتہ نہین کیا ہو گا، میں کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو درخت کے ساتھ ٹانگ دینا چاہئے اور اسوقت نہیں اتارنا چاہئے جب تک گدھ ان کی بوٹیاں نہیں کھا لیتے،عابد باکسر نے کہا کہ دیکھیں اب ایک بندے کو ہم اسکو اتنا لمبا کیوں لے کر جائیں، ایک بندہ ہے اسکو پتہ ہے اسنے مر جانا ہے،جب پکڑا جائے گا تو شاید پبلک ہی اسکو نہ چھوڑے، اس نے مزاحمت کرنی ہے ہر قیمت پر،مزاحمت کا پولیس کو موقع پر جواب دینا چاہئے لیکن پلیز جو ڈی این اے ٹیسٹ ہو رہے ہیں ، قصور میں بے گناہ اسی طرح مارا گیا، اپنی تفتیش کیجیے، کسی جگہ میری ضرورت پڑی، میں ساتھ دوں گا محکمے کا بے شک میں فورس میں نہیں ہوں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ یہ بھی بتائیں کہ آجکل جو پولیس والے فورس میں ہیں وہ اس قابل نہین کہ کیس کو سلجھائیں جس پر عابد باکسر کا کہنا تھا کہ قابل ہیں لیکن سب ڈرے ہوئے ہیں، میں تو نوکری میں نہیں ہوں اسلئے بیان دے سکتا ہوں، میں چار دن پہلے ساہیوال جیل میں سزائے موت کے قیدی آصف خان ایک دوست کو ملنے گیا،چار سال پہلے ایک‌ ڈاکو پکڑا گیا، پبلک نے مارا، وہ پولیس کے پاس پہنچا مر گیا، سزائے موت ہو گئی، آج تک اسکی ملاقات کے لئے کوئی نہیں گیا،میں یہ نہیں کہتا کہ پولیس افسران کرائم میں ساتھ دیں، اتنا تو دیکھیں غیر دانستہ نوکری کے دوران کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو اتنا تو کریں کہ میری فیملی سروائیو کرسکے، دیکھیں ، مبشر صاحب ،آپ نے میرا پہلا پروگرام کیا، میری تفتیش تبدیل ہوئی تھی، نہیں ہوئی تھی، میں کہتا رہا کہ مین بے گناہ ہوں، مجھے بورڈ نے بے گناہ کر دیا، ملزم جنہوں نے میرے اوپر جھوٹے پرچے بنائے،کسی ایک کا نام آپ کے سامنے آیا، میں سب میں بے گناہ ہو گیا، میرے ماموں کو دوران تفتیش قتل کر دیا گیا،کیا انصاف ملا، عمران خان صاحب آپ کے تو بڑے بڑے دعوے تھے، مجھ سے شروع کیجیے،انویسٹی گیشن کروایئے،میرے ساتھ ہوا کیا، اتنے پرچے، تین بار انٹرپول نے پکڑا، اتنا تو پوچھیں کہ یہ بے گناہ ہو گیا، اس پر پرچے کس نے کروائے تھے، میں 21 مارچ 19 سے ، ڈیڑھ سال ہو گیا بے گناہ ہوں لیکن ابھی تک میرا نام ای سی ایل میں ہوں، میں نے رٹ کی تو قاسم خان صاحب نے فیصلہ دیا کہ نام ای سی ایل سے نکالا جائے میں ایئر پورٹ گیا تو کہا گیا کہ نام بلیک لسٹ میں ہے، میں نے پھر رٹ کی، پھر عدالت نے فیصلہ دیا کہ اسکو جانے دیا جائے ،میں پھر گیا تو انہوں نے کہا کہ کوئی آئی بی ایم ایس ہے، اس لسٹ میں آپکا نام ہے، اب پھر میں رٹ پر جا رہا ہوں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اصل میں لوگ آپ سے پیار بہت کرتے ہیں، لیکن ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ میں ایک بڑا نقصان ہوتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ مجرم کے ساتھ ساتھ جرم بھی مرنا چاہئے، یہان ‌ہوتا ہے کہ مجرم مر جاتا ہے لوگوں کو پتہ نہیں چلتا ،جرم رہتا ہے، مجرم کو ایسی سزا ہونی چاہئے قانون کے تحت جس کو لوگ صدیوں تک یاد رکھیں، جیسے پپو کے قاتلوں کو آج بھی لوگوں کو یاد ہے، لوگ نہیں بھولتے، ضیاء الحق میں سو برائیاں ہوں گی لیکن اس نے قتل اور ریپ کے کیسز پر قابو پا لیا تھا، جس پر عابد باکسر کا کہنا تھا کہ ایک مثال ہے ، ریچھ، بھیڑئے اور شیر کی یاری تھی،شیر نے کہا کہ میں انکو چیک کروں یاری کیسی ہے، شیر نے ہرن کا شکار کیا اور ریچھ کو کہا کہ اس کے حصے کرو اپنے اور میرے ،ریچھ نے اچھا اچھا گوشت اپنے لئے رکھ لیا، گندا شیر کو دے دیا، شیر نے ریچھ کو لمبا ڈال لیا، اب اس نے بھیڑیئے کو کہا کہ تم انصاف کرو،بھیڑئے نے اچھا گوشت شیر کو دیا اور گندہ اپنے لئے رکھ لیا، شیر نے پوچھا کہ تم نے اتنا اچھا انصاف کر لیا جس پر اس نے کہا کہ ریچھ کو جوتے لگے مجھے انصاف سمجھ آ گیا

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اب یہ بتائیں کہ پنجاب پولیس سے کوئی اچھائی کی امید ہے جس پر عابد باکسر کا کہنا تھا کہ بہت اچھی فورس ہے، ذوالفقار ورک، فاروق اعوان جیسے پروفیشنل آفیسر ہیں، انکو تھوڑا سا ایزی کریں، یہ گھبرائے ہوئے ہیں، ہمارا انجام دیکھ کر،99 کا جب حکومت آگئی سب کو چن چن کر مار دیا گیا، سب کو ڈسمس کر کے فورس لی گئی اور سڑکوں پر مار دیا گیا، کسی کا کچھ نہین بنا، اب میں گارڈ رکھتا ہوں تو میں بدمعاش ہوں، میں گاڑی رکھتا ہوں تو غنڈہ گروپ ہوں،قبضہ گروپ ہوں، مجھ سے پوچھیں جواب دوں گا، اس طرح ڈی مورال کر دیا گیا ہے

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ دو سال میں پانچ آئی جی اور کتنے افسران تبدیل ہوئے، پولیس والا جو آتا ہے وہ مٹھائی وغیرہ نہیں لیتا کہ سیاہی خشک ہونے سے پہلے اسکی ٹرانسفر ہو سکتی ہے،جس پر عابد باکسر کا کہنا تھا کہ میں اسکا بہت اچھا جواب دے سکتا ہوں لیکن نہیں دوں گا،میرا ای سی ایل میں نام ہے جس پر مبشر لقمان نے کہا کہ مجھے جواب مل گیا، اس کا مطلب ہے کہ پولیس کو خود خراب کیا جا رہا ہے، عابد باکسر کا کہنا تھا کہ پولیس بہت خوفزدہ ہے،میں کبھی کبھی ان سے بات کرتا ہوں، دکھ ہوتا ہے، ابھی سب ہم پر انحصار کر رہے ہیں کہ ہم کنٹرول کر نے کے لئے کچھ کریں، جو لوگ کرٹسائز کرتے تھے مجھے اب کہتے ہیں عابد باکسر کو آنا چاہئے، کیوں؟ اب انکی خواہش ہے کہ میں آوں، جب میں ریپسٹ، اجرتی قاتل، دہشت گرد مارتا تھا جنکی تمام جوڈیشیل انکوائریز ہوئی ہیں، تو اسوقت برا تھا، آج ضرورت پیش آئی تو فلاں بھی آ جائے،اپنے رویئے ٹھیک کریں ہم آج بھی حاضر ہوں، ضروری نہین کہ میں پولیس فورس میں ہوں تو انکی خدمت کر سکتا ہوں،میں پولیس فورس کا حصہ رہا ہوں اور آج بھی حصہ رہوں گا.

Shares: