باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ ، ڈینئل پرل کیس میں سندھ ہائیکورٹ فیصلے کےخلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی

عدالت نے مقدمے کی سماعت مقرر کرنے کےلیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا،سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی سندھ حکومت کی استدعا مسترد کر دی

جسٹس منظور احمد ملک نے وکیل سے استفسار کیا کہ ڈینئل پرل کے اغوا کا گواہ کون ہے؟ وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اغوا کا گواہ ٹیکسی ڈرائیور ہے،عدالت نے استفسار کیا کہ کیا گواہ نے کہا کہ مغوی ڈینئل پرل تھا؟ استغاثہ کے گواہ ٹیکسی ڈرائیور کے بیان میں جھول ہے، ٹیکسی ڈرائیور کو کیسے علم ہوا کہ گورے رنگ کا یہ شخص ڈینئل پرل ہے؟ کیا کراچی میں صرف ڈینئل پرل ہی گورے رنگ کا تھا؟ ہمیں کیسے پتا کہ وہ ڈینئل پرل تھا؟

فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ حالات و واقعات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ ڈینئل پرل تھا،جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ ٹیکسی ڈرائیور نے کیسے ڈینئل پرل کو پہچان لیا؟ جسٹس منظور احمد ملک نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ویسے تو آپ کارنگ بھی گورا ہے،فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میرا رنگ اتنا گورا نہیں ہے

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سی پی ایل سی کے سربراہ سے ملنے کے بعد ڈینئل پرل عمر شیخ سے ملا،جس پر عدالت نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے تو دفعہ 302 کے تحت تو ملزمان کو سزا ہی نہیں دی،کیا آپ نے ٹرائل کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا تھا؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اس کیس میں کیپٹل ریفرنس فائل کیا گیا تھا،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہائیکورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ سازش ہوٹل میں نہیں ہوئی،میں یہ ثابت کروں گا کہ سازش ہوٹل میں ہوئی،

حکومت سندھ اور امریکی صحافی ڈینیل پرل کے والدین نے صحافی ڈینئل پرل کے قتل میں ملوث ملزمان کی بریت سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ سندھ حکومت اور ڈینئل پرل کے والدین کی جانب سے دائر اپیلوں میں عدالت عظمی سے استدعاکی گئی ہے کہ امریکی صحافی ڈینئل پرل قتل کیس میں ملوث ملزمان کی بریت سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے اس کیس میں ملوث ملزمان کو دی گئی سزائیں بحال کی جائیں

واضح رہے کہ 2 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلیں تھیں جبکہ مرکزی ملزم عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں 3 ملزمان کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ مجرم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔احمد عمر سعید شیخ کیونکہ پچھلے 18 سالوں سے جیل میں تھے لہٰذا ان کی 7 سال کی سزا پورے وقت سے شمار کیے جانے کے بعد ان کی بھی رہائی متوقع تھی۔

تاہم 3 اپریل کو بڑی پیش رفت سامنے آئی تھی اور محکمہ داخلہ سندھ نے سی آئی اے کے ڈی آئی جی کی درخواست پر چاروں ملزمان کو مزید 90 روز کے لیے دوبارہ حراست میں لینے کا حکم دے دیا تھا۔یہ صحافی کے قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دوسری درخواست ہے۔سندھ حکومت نے 22 اپریل کو صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس کا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔28 اپریل کو سندھ حکومت نے اپنی درخواست کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

Shares: