بھارت میں متنازعہ قانون،مسلمانوں کے لئے مشکلات، مسلم جوڑے کو شادی سے روک دیا گیا

بھارت میں متنازعہ قانون،مسلمانوں کے لئے مشکلات، مسلم جوڑے کو شادی سے روک دیا گیا

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مذہب کی جبری تبدیلی کے حوالہ سے لاگو قانون کی وجہ سے مسلمانوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، گزشتہ روز مسلمان جوڑے کو بھی شادی سے روک دیا گیا

اتر پردیش کے متنازعہ جبری تبدیلی مذہب قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے. متانزعہ قانون کے حوالہ سے ایک مرتبہ پھر سوال کھڑے ہو گئے ہیں کیونکہ اس قانون کو لے کر مسلمانوں کے لئے مشکلات میں اضافہ ہواہے

اتر پردیش پولیس نے محض لو جہاد کی افواہ کی بنیاد پر ایک ہی مذہب کے لوگوں کو شادی کرنے سے روک دیا۔ رپورٹ کے مطابق 39 سالہ دولہا حیدر علی نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے اسے رات بھر حراست میں رکھا اور اسے زد و کوب بھی کیا گیا۔ کشی نگر تھانے کی پولیس کو فون پر اطلاع دی گئی کہ یہاں ایک ایسی شادی ہونے جا رہی ہے جس میں لڑکی ہندو ہے اور اس کا مذہب تبدیل کر کے اس کی شادی کی جا رہی ہے۔

پولیس نے محض اس اطلاع کی بنیاد پر موقع پر پہنچ کر شادی کو روک دیا،ایس ایچ او سنجے کمار کے مطابق اس سارے معاملہ کے ذمہ دار شرارتی عناصر ہیں اور جب انہیں معلوم چلا کہ لڑکی اور لڑکے کا تعلق ایک ہی مذہب سے ہے تو ان دونوں کو چھوڑ دیا گیا

واضح رہے کہ بھارت میں میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ شادی سے پہلے گھر والوں کی رضامندی حاصل کی جائے۔

مقامی سماجی کارکن ارمان خان کا کہنا ہے کہ حیدر علی نے ان سے رابطہ کیا تھا اور سبیلہ سے شادی کرنے کے لئے مدد مانگی تھی۔ سبیلہ اپنے والدین کی مرضی کے بغیر گھر سے چلی آئی تھی۔ اس سے پہلے کہ تقریب ہوتی ہندو تنظیم کے کچھ ارکان وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے دونوں سے سوال جواب کرنے شروع کر دیئے ۔ گاؤں کے کچھ غیر مسلم افراد کی شکایت کے بعد حیدر علی کے گاؤں کے چوکیدار مستقیم نے پولیس کو اطلاع دی۔

واضح رہے لو جہاد کے خلاف نئے قانون کے بعد سے اب تک اتر پردیش میں پانچ مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ مرادآباد میں پانچواں کیس درج ہوا تھا اور سب سے پہلا کیس بریلی میں درج ہوا تھا

Comments are closed.