پاکستان سے پانچ سال قبل بھارت پہنچنے والی گونگی اور بہری لڑکی گیتا آج بھی اپنے والدین کی تلاش میں ہے لیکن اسے اپنے والدین نہیں مل رہے۔ گیتا کی عمردس سال تھی جب 2000 میں وہ امرتسر میں غلطی سے سمجھوتا ایکسپریس میں سوار ہو کر لاہور پہنچ گئی تھی اور ریلوے اسٹیشن پر بے یارومددگار پھر رہی تھی کہ پاکستان رینجرز نے اسے تحویل میں لے لیا جہاں اس سے تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ وہ نہ تو سن سکتی ہے اور نہ ہی بول سکتی ہے۔ رینجرز حکام نےاسے ایدھی فاونڈیشن کے
سپرد کردیا جہاں عبدالستار ایدھی نے اسے اپنی بیٹی بنا لیااوراسے ایک دردمند شخص کے پاس رہنے کے لئے بھیج دیا۔ اسی دوران پاکستان نے بھارتی حکام سے رابطہ کیا تو بھارت میں کئی خاندانوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کی بیٹی ہے۔ لیکن جب ان کی تصاویر پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کی وساطت سے گیتا کو دکھائی جاتیں تو وہ انہیں پہچاننے سے انکار کر دیتی۔بالآخر ایک فیملی کو گپتا نے شناخت کرلیا جس کی بنیاد پر بھارتی حکام نے گپتا کی سفری دستاویز تیار کیں اورآخرکار 26اکتوبر 2015کو
اس وقت کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج گیتا کو بھارت لے جانے میں کامیاب ہوگئیں۔ بھارت پہنچ کر گیتا نے اس فیملی کو بھی اپنا ماننے سے انکار کردیا جس کے بعد سشما سوراج نے گیتا کو بھارت کی بیٹی قرار دیااور اس سے وعدہ کیا کہ وہ بھارت بھر میں اس کے حقیقی والدین کو تلاش کریں گی۔ سشماسوراج نے گیتا کو سرکاری سرپرستی میں چلنے والی ایک این جی او کے سپرد کردیا جہاں اسے گونگے بہرے بچوں کے اسکول میں داخل کرادیاگیا۔ اسی دوران گیتا کے والدین کی تلاش جاری رہی تاہم سشماسوراج کی موت کے بعد یہ تلاش رک گئی۔ گیتا اس وقت بھی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں اسی این جی او کے پاس رہ رہی ہے اور اس وقت اس کی عمر تیس برس ہے۔چند دن قبل گیتا کے والدین کی دوبارہ تلاش شروع کی گئی اور اسی سلسلے میں گیتا حیدرآباد کے شہر بسار ٹاؤن پہنچی جہاں پولیس کی مدد سے اسے ریلوے اسٹیشن، مندروں، دریا اور بس اڈوں پر لے جایا گیا لیکن اس کے والدین کا کوئی نشان نہ مل سکا۔ اتنا عرصہ اپنوں سے جدائی کا دکھ تو گیتا کو ضرور ہوگا لیکن اس کی سننے اور بولنے کی اہلیت نہ ہونے کے سبب اس کا دکھ گم ہو کر رہ گیا ہے۔

پاکستان سے پانچ سال قبل بھارت جانے والی گیتا کو آج بھی والدین کی تلاش ہے
Shares: