ہندوتوا نفرت کے آتش فشاں نے لاوا اگل دیا،بھارتی اقلیتوں کا دامن تار تار، اہم انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ بھارتی کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے بعد نئی دہلی میں سکیورٹی بدستور ہائی الرٹ ہے ۔ بھارتی کسان ریلی کے بعد دوبارہ دہلی کی سرحدوں پر جا بیٹھے ہیں ۔ جبکہ امریکی میڈیا نے تو کہنا شروع کر دیا ہے کہ بھارت میں کسان احتجاج ملک گیر بغاوت میں بدل سکتا ہے ۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس وقت دہلی کے لال قلعہ اور بارڈرز پر اضافی نفری تعینات ہے جبکہ کچھ سڑکیں بھی بند ہیں۔ مودی کی پولیس نے 22 ایف آئی آر درج کرلیں ہیں۔ ۔ جبکہ مظاہرین کے رہنما یوگیندر یادو نے کہا ہے کہ یکم فروری کو جب پارلیمنٹ میں مودی حکومت بجٹ پیش کرے گی تو مظاہرین منصوبہ بندی کے تحت ایک اور مارچ کیلئے آگے بڑھیں گے ۔ اس پر ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مودی کی پالیسیوں کے باعث بھارت میں داخلی بے چینی بڑھتی جارہی ہے ۔ پہلے کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کا یک طرفہ اقدام اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی نے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر مسائل سے دو چار کیا ۔ پھر شہریت کا متنازع قانون بنایا جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس قانون کے خلاف بھی بھارت میں احتجاجی لہر پیدا ہوئی ۔ مودی حکومت کورونا کے معاشی و سماجی اثرات کا مقابلہ کرنے میں بھی ناکام رہی اور متنازع زرعی قوانین کی منظوری کے بعد مودی حکومت نے بھارت میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے ۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ کسانوں کی تحریک بھارت کے پورے معاشی ڈھانچے کو تبدیل کردے گی۔ لال قلعہ پر ترنگا ہٹا کر سکھوں کا جھنڈا لگانا۔ یہ واقعہ علامتی اور ظاہری اعتبار سے بھارت کی داخلی ٹوٹ پھوٹ کے سفر میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔۔ میں آپکو بتاوں بہت پہلے ہی سرسید احمد خان اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح نے کانگرس اور ہندو انتہا پسندوں کی اصلیت بھانپ لی تھی۔ قائد اعظم کی اس بصیرت کا اعتراف آج بھارت میں آباد تمام اقلیتیں کر رہی ہیں۔۔ بھارتی حکمرانوں کی متعصبانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت بھارت میں آزادی و علیحدگی کی 67 تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں سے17 بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ بھارت کے 162 اضلاع پر انتہا پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ ناگالینڈ ، میزو رام ، منی پور اور آسام میں یہ تحریکیں عروج پر ہیں۔ جبکہ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک زوروں پرہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں سال 2016 سے نفرت انگیزی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور یہ ابتر صورت حال گزشتہ برس میں بدترین سطح تک پہنچ گئی ۔ مودی دور میں انتہا پسند ہندوئوں کی بر بریت کا صرف مسلمان ہی شکار نہیں بلکہ دیگر اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئی ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ کو یاد ہو تو اکتوبر2015ء کو بھارتی پنجاب کے علاقے فریدکوٹ میں ہندوؤں نے ایک گردوارے کے قریب سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب کے سو سے زائد مسخ شدہ نسخے پھینک دئیے۔ اس واقعے کے خلاف احتجاج کرنے پر پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی جس سے پانچ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے بعد ازاں پے در پے گرو گرنتھ صاحب کی بے حرمتی کے واقعات بڑھے اور جالندھر، لدھیانہ ، امرتسر، کوٹ کپور میں چھ مختلف واقعات میں سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کر کے سکھ کمیونٹی کے جذبات مجروح کئے گئے۔ ۔ بھارت میں مسیحی برادری بھی ایک بڑی اقلیت ہے جو ہندوؤں کے رحم و کرم پر ہے۔ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا، جلانا ، مذہبی کتابوں کی بے حرمتی اور انہیں زبردستی ہندو دھرم میں شامل کرنا جیسے واقعات عام ہیں اور خوف و ہراس پر مشتمل تحریری مواد مسیحی آبادیوں میں تقسیم کرکے انہیں ہراساں کیاجاتا ہے۔۔ ہندوؤں کا عام خیال ہے کہ اکھنڈ بھارت کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عیسائیوں کو ختم نہ کر دیا جائے۔ یوں بھارت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا خاتمہ بھی ’’سنگھ پریوار ‘‘کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج 2016 کے بعد 17ہزارکشمیریوں کو شہید کر چکی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت سمیت دنیا میں بسنے والے سکھوں نے بھی کشمیریوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کو اس بات کی سمجھ آگئی ہے کہ کل کو ان کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے۔۔ نتیجتاً کشمیر ایشو کے ساتھ ساتھ بھارت میں خالصتان تحریک زور پکڑ گئی ہے۔
نریندر مودی اور ان کی جماعت نے جو بویا اسے کاٹنے کا وقت آ پہنچا ہے ۔ دہلی کا لال قلعہ ہندوستان کے لئے ہمیشہ اہم رہا ہے ۔ اس وقت تک سکھوں نے مودی کی ایسی کی تیسی کر دی ہے ۔ مدت تک مودی اسے یاد رکھے گا۔۔ صورتحال یہ ہے کہ برہمنوں کے بغیر کسی دوسرے کوجینے کا حق حاصل نہیں۔ مسلمان ،دلت ،سکھ اورمسیحی سب انتہاپسندوں کے نشانے پر ہیں۔ مسلمان ،دلت ،سکھ اورمسیحی سے کھلواڑ ہو رہا ہے،نفرت و عداوت کاعفریت چنگھاڑ رہاہے ۔ ۔ مسلمانوں کو گھر واپسی، لوجہاد ،لینڈ جہاد، ٹرپل طلاق کے ذریعے گھیرلیاگیاہے ۔ ۔ دلت بے حال ہیں حالانکہ وہ ہندوہیں ان کاکوئی دوسرامذہب نہیں مگران کے ساتھ برہمن جوسلوک روارکھے ہوئے ہیں اسے ان کی آنکھیں آنسوں میں نہاکر شکوہ کناں ہیں۔۔ پر ان تمام اقلیتوں کے برعکس سکھ اپنے مطالبات منوانے پرقائم اوربراجمان ہیں اور خم ٹھونک کر برسراحتجاج ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہاس وقت ہر عقل و فہم والا شخص تو یہ کہہ رہا ہے کہ مودی حکومت کے پاس اپنی غلطی تسلیم کرنے اورفیصلے واپس لینے کے سوا چارہ باقی نہیں ہے اور دہلی میں کسانوں کے ٹریکٹر مارچ نے مودی کی ساکھ نہایت بری طرح مجروح کردی ہے۔ پر میں آپکو بتاؤں مودی پیچھے نہیں ہٹے گا کوئی شرارت لازمی کرے گا ۔ ۔ دراصل ہندوتوا نفرت کے اس آتش فشان نے اپنا لاوااگل دیا ہے ۔ بھارتی اقلیت کادامن تار تار ہے۔ نام نہادسیکولر ازم سر پیٹ رہا ہے اوربھارت انارکی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہر طرف خوف کا ماحول ہے۔ قتل وخون ریزی عام ہے۔ غربت کے سائے ہر سو پھیل چکے ہیں۔ افلاس کی دھوپ کی وہ شدت ہے کہ بے شمار زندگیاں روزانہ دم توڑ رہی ہیں۔ کسان خودکشیاں کررہے ہیں۔ اقلیتوں کی عزتوں اور ان کی جان ومال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں پھر سکھوں کی شکل میں عوامی آواز نقارہ خدابن کربلندہوئی ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہسکھوں نے لال قلعے پر جھنڈالہراکربھارت کے مسلم، سکھ، مسیحیوں اور پارسیوں سب کوسمجھایا ہے کہ بھارت میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے کندھے سے کندھا ملاکربے خوف ہوکر آگے بڑھیں اورانہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ براہمنوں نے اعلان جنگ کر دیا ہے ۔ ۔ آخر میں ۔۔۔ کہ اب اس میں کوئی شک والی بات نہیں رہی کہ قائد اعظم کاساتھ نہ دینے والے مسلمانوں کی نسلوں کوآج اس انکار کی قیمت چکانی پڑرہی ہے

Shares: