باجوہ صاحب کے ساتھ ہوتے ہوئے کوئی بھی بیان بازی خان صاحب کی ذاتی نہیں ہوسکتی بلکہ جو بھی اسٹیٹمنٹس دی جائیں گی وہ اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کا متفقہ بیانیہ ہوگا.
اور مان لیجیئے کہ ریاست پاکستان کا فی زمانہ بیانیہ یہی ہے. ماضی قریب میں وقوع پذیر والے واقعات کو ہی بطور مثال لے لیں، مذہبی و جہادی سوچ کی حامل جماعتوں پر پابندی اور انکی قیادت کی گرفتاری، کشمیر میں موجود جہادی گروہوں کے بارے میں بھارت کو انٹیلیجنس معلومات دینا، سلامتی کونسل میں بھارت کو ووٹ دینا، کشمیر کے ایشو پر وقتی چپ سادھ لینا، افغانستان ایشو پر دو ٹوک موقف رکھنا، افغان پناہ گزینوں کی واپسی، مغربی سرحد پر باڑھ کا لگنا ، پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنا، کرپشن چارجز پر جیلیں بھرنا اور اب امریکہ کے دورے میں ٹرمپ کی ہاں میں ہر طرح سے ہاں ملانا اور اسامہ بن لادن تک سی آئی اے کی رسائی میں آئی ایس آئی کے کردار کا اعتراف کرنا یہ سب ماضی قریب ہی کہ واقعات ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ ریاست پاکستان اپنا چہرہ واقعی ہی میں تبدیل کرنے جا رہی ہے. جنرل مشرف کے نئے پاکستان کی طرز پر یہ بھی اک بالکل نیا پاکستان بننے جا رہا ہے. جنرل مشرف نے جو حکمت عملی اپنائی تھی فی زمانہ اسی کی وسیع و عریض شکل کو رائج کیا جا رہا ہے. اس لیے آپ حالیہ بیانات کو چولیں کہیں یا کچھ اور، ان کا دفاع کریں یا کہ تنقید، پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ ایک پیج پر ہیں تو یہ سب کچھ وقوع پذیر ہونا ہے. آپ مزید کی بھی توقع رکھ سکتے ہیں.

 

Muhammad Abdullah
Shares: