تیسری عالمی جنگ خلا میں ہو گی، خلا میں بیسز بننا شروع، تہلکہ خیز انکشافات

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ کہاجاتا ہے کہ اب جنگ کبھی زمین پر نہیں لڑجائے گی اور بڑی طاقتیں پنجہ آزمائی خلاء میں کریں گی ۔ اگر دیکھا جائے تو ایک جانب امریکہ اور اسکے اتحادی ہیں تو دوسری جانب چین اور روس ہیں جو خلاء کو تسخیر کرنے میں لگے ہوئے ۔ کروڑوں ، اربوں کی نئی سرمایہ کاری ہو رہی ہے کہ نئے سے نئے آلات ، سسٹمز تیار کیے جائیں ۔ یہاں تک کہ یہ ممالک خلاء میں باقاعدہ فوج رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہوچکے ہیں ۔ بے تحاشا روپیہ پیسہ لگا کر یہ تمام ممالک نئی سے نئی ریسرچ کرو ارہے ہیں اور خلاء میں ایک دوسرے سے بازی لینے کے درپے ہیں ۔ ۔ جیسے جیسے سیٹلائٹس کی عام شہریوں کی زندگیوں اور جنگی عملیات میں اہمیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس بات کا بھی امکان بڑھ رہا ہے کہ کسی کو ان سیٹلائٹس پر حملہ کرنے کا فائدہ نظر آئے اور اس طرح دنیا کی سب سے پہلے خلائی جنگ چھڑ جائے۔

اس وقت فرانس دنیا کی تیسری بڑی خلائی طاقت بننے کی کوشش میں ہے۔ فرانس نے اس ہفتے سے خلاء میں اپنی پہلی فوجی مشقوں کا آغاز کیا ہے۔ اس کا مقصد اس بات کا اندازہ لگانا ہے کہ حملے کی صورت میں اس کی خلائی کمانڈ اپنے خلائی مصنوعی سیاروں اور دیگر دفاعی آلات کے دفاع کی کتنی صلاحیت رکھتی ہے۔ فرانس کی فوج کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی مشقیں ہیں جبکہ یورپ میں بھی پہلی بار ایسا ہو رہا ہے۔ اس بارے آگے چل کر بتاتا ہوں ۔ پر پہلے یاد کروادوں کہ ۔ سیٹلائٹس کو مار گرانے کی باتیں اس وقت سے کی جارہی ہیں جب سے سیٹلائٹس ایجاد ہوئے تھے۔ 1958ءمیں sputnik کے لانچ کے ایک سال کے اندر ہی امریکہ نے پہلا (anti-satellite weapon – ASAT) ٹیسٹ کیا تھا۔ جو ناکام ثابت ہوا۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سویت یونین دونوں نے سیٹلائٹس پر حملہ کرنے کے لئے پیچیدہ آلات تیار کیے۔ امریکہ کے پاس فائٹر جیٹس سے لانچ کیے جانے والے میزائلز (جن کی 1985ء میں کامیاب طور پر ٹیسٹنگ کی گئی) کے علاوہ دشمن سیٹلائٹس تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے جوہری سیٹلائٹس بھی موجود تھے۔

2007ء میں چین میں پہلا کامیاب (anti-satellite weapon – ASAT) ٹیسٹ کیا گيا۔ ۔ گزشتہ سال روس، امریکہ اور چین کے بعد بھارت کا نام بھی زمین کے اطراف گردش کرنے والی سیٹلائٹ کو کامیاب طور پر تباہ کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا تھا ۔ مشن شکتی نامی اس مہم کا مقصد براہ راست اوپر جانے والے اینٹی سیٹلائٹ ویپن (anti-satellite weapon – ASAT) یعنی زمین سے لانچ ہونے والی میزائل، کا مظاہرہ کرنا تھا۔۔ اب جی پی ایس اور سیٹلائٹ مواصلت ہمارے انفراسٹرکچر میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہيں۔ لہٰذا ان پر حملوں سے تباہی مچ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ افواج بھی سیٹلائٹس کا پہلے سے زیادہ استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان اور عراق میں استعمال ہونے والے (Reaper) ڈرونز جیسے مسلح UAVs کے ڈیٹا اور ویڈیو فیڈز انسانی آپریٹرز کو بذریعہ سیٹلائٹ بھیجے جاتے ہیں۔ اسی طرح سیٹلائٹس دنیا بھر کے آپریشنز سینٹرز کو انٹیلی جینس اور تصاویر بھی بھیجتی ہیں۔ ۔ چینی تجزیہ کاروں کے تخمینے کے مطابق 90 فیصد امریکی فوجی انٹیلی جنس میں خلائی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔ یہاں میں آپکو بتاؤں کہ 2017 میں روس کی ایک جاسوس سیٹلائٹ اٹلی کی ایک سیٹلائٹ کی طرف بڑھی تھی جسے فرانس نے خلاء میں جاسوسی کی کوشش سے تعبیر کیا تھا۔ روس کی سیٹ لائٹ نے ۔۔۔ ایتھنا فیڈوس ۔۔۔athan fedos سیٹلائٹ کے سگنلز کو روکنے کی کوشش کی تھی جسے اٹلی اور فرانس جیسے ملک اپنے مواصلاتی نظام کے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

۔ گزشتہ برس امریکا نے بھی روس پر ایک خفیہ اینٹی سیٹلائٹ ہتھیار کا خلاء میں تجربہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔۔ اسی لیے جو فرانس مشقیں کر رہا ہے اس میں بھی فرانسیسی فوج ممکنہ طور پر ایک خطرناک خلائی آبجیکٹ کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ہی اپنی سیٹلائٹ کے لیے ایک ایسی بیرونی طاقت سے خطرہ محسوس کریگی جو خلائی فوجی طاقت سے لیس ہو۔۔ خلاء میں فوجی مشق کا منظر ایک ایسے ملک کے ساتھ بحران پر مبنی ہے جس کے پاس خلائی طاقت ہے اور دوسرا ملک وہ ہے جس کا فرانس کے ساتھ عسکری تعاون کا معاہدہ ہے۔ فرانس کی جانب سے ہونے والی ان خلائی مشقوں میں امریکا کی خلائی فورس اور اور جرمن خلائی ایجنسی بھی شریک ہیں۔۔ فرانس نے 2019 میں خلاء سے متعلق اپنی اسپیس فورس کمانڈ’ کی بنیاد ڈالی تھی اور امکان ہے کہ 2025 تک خلاء میں اس کے تقریبا ً500 فوجی تعینات ہوں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ آئندہ چھ برسوں کے دوران خلائی فوجی پروگرام میں سرمایہ کاری بھی تقریباً پانچ ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ فی الوقت اس پر امریکا اور چین سب سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔

فرانس کی وزیر دفاع Florence Parly کا کہنا ہے کہ ۔۔۔ ہمارے اتحادی اور حریف خلا کو فوج سے لیس کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی اس پر اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔۔ فرانس اینٹی سیٹلائٹ لیزر ہتھیار بنانے کا منصوبہ رکھنے کے ساتھ ہی خلاء میں نگرانی کرنے کی اپنی صلاحیت کو بھی بہتر کرنا چاہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ مستقبل میں خلاء بھی زمین پر بسنے والی طاقتوں کے مابین تصادم کا ایک تھیٹر بن سکتا ہے۔ ۔ یہاں میں آپ کو یاد کروادوں کہ فرانس کچھ نیا نہیں کر رہا ہے۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ امریکہ کی پیروی میں ہی سب کچھ کر رہا ہے ۔ اس سے بھی پہلے امریکا نے خلا میں جنگ لڑنے کی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں ۔ اس سلسلے میں امریکہ نے دوسال قبل ہی اسپیس فورس کے لئے ابتدائی تیاریاں شروع کردی تھیں ۔ اس وقت امریکی نائب صدرمائیک پنس نے کہا تھا کہ نئے میدان جنگ کے لئےتیاری کا وقت آگیا ہے۔

یاد رہے اسپیس فورس کےقیام کا حکم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم یہ برداشت نہیں کریں گے کہ چین اور روس ہم سے پہلے خلا میں ہوں۔ اس بار خلا پر صرف جھنڈا یا قدموں کے نشان نہیں چھوڑیں گے بلکہ خلا پر قبضہ کریں گے۔ روس اور چین کو وہاں اپنے قدم جمانے نہیں دیں گے۔ ہم پر لازم ہے کہ خلا میں امریکی غلبہ ہو۔۔ خلائی جنگ کے بارے میں بات کرنے والے لوگ اکثر یہی سمجھتے ہيں کہ اس میں ابھی بہت وقت ہے اور اگر ایسا ہوجائے تو اس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلے گی۔ لیکن یہ آنے والے کل کی نہيں۔ آج کی بات ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں واقع CSIS نامی تھنک ٹینک کے (Aerospace Security Project) کے سربراہ (Todd Harrison)
کا ماننا ہے کہ آج کشیدگی کی روک تھام میں بے یقینی کا عنصر زيادہ ہے۔ غیر ریاستی عناصر کے علاوہ شمالی کوریا اور ایران سمیت کئی ممالک کو ایسی خلائی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوچکی ہے جس کی مدد سے خلاء میں طاقتور ممالک کو بہت نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سیٹلائٹس کو تباہ کرنا ضروری نہيں ہے۔ سیٹلائٹس اور زمینی سٹیشنز کے درمیان ڈیٹا کی منتقلی میں مداخلت کے ذریعے بھی حملہ کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ چند ہیکرز ایسا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔2008 میں ناروے کے زمینی سٹیشن پر حملے کی مثال لے لیں جس میں ایک ہیکر NASA کی (Landsat) سیٹلائٹس میں 12 منٹ تک مداخلت متعارف کرنے میں کامیاب رہا۔ اسی سال ہیکرز نے NASA کے (Terra Earth) کی observation satellite تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کمانڈز جاری کرنے کے علاوہ ہر طرح کے کام کرڈالے تھے ۔

یہ بات واضح نہيں ہوسکی ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا۔ نہ ہی یہ معلوم ہوسکا ہے کہ اس حملے کے پيچھے کس کا ہاتھ ہے۔ تاہم کچھ نے چین کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔۔ امریکی ڈیفینس انٹیلی جینس ایجنسی (Defense Intelligence Agency – DIA) کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گيا ہے کہ چین اب ایسے جیمرز تیار کررہا ہے جو فوجی مواصلت کے بینڈز سمیت کئی frequencies کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا نے روس سے جیمرز خرید لیے ہيں اور عراق اور افغانستان میں باغی گروپس نے بھی ان کا استعمال کیا ہے۔ امریکہ کئی دہائیوں سے خلاء میں سب سے نمایاں ملک رہا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس وجہ سے سب سے زیادہ نقصان بھی اسے ہی ہوگا۔ DIA کی رپورٹ کے مطابق چین اور روس نے اپنی افواج کو نئے سرے سے اس طرح منظم کیا ہے کہ اب وہ بھی خلائی جنگوں میں اہم کردار ادا کرسکیں گی۔ اس کے علاوہ امریکی افواج کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ امریکہ اپنا نمایاں مقام کھوچکا ہے۔ روس اور چین کے counter space کے نظاموں میں جس رفتار سے ترقی ہورہی ہے، اس رفتار سے امریکہ اور اتحادی سیٹلائٹس کی حفاظت نہيں کرپارہے ہیں۔۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کئی دہائیوں سے رکن ممالک کو خلاء کو اسلحے سے پاک رکھنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔ 25 سے زیادہ ممالک نے جینیوا میں ایک خفیہ میٹنگ میں نئے معاہدے پر طویل بحث کی تھی ۔ پر نتیجہ کچھ نہ نکل سکا۔ پر جو واضح دیکھائی دے رہا ہے کہ اب یہ بڑے ممالک خلاء میں جا کر بھی جنگ وجدل کریں گے ۔

Shares: