وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تعلیمی اداروں کی حالت زار، کمیٹی میں ہوا انکشاف
ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کی ذیلی کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ کچھ سرکاری سکولوں کی حالت ایسی ہے جہاں مرمت انتہائی ضروری ہے۔ خدانخواستہ اگر عمارت منہدم ہو گئی تو اس سے اموات بھی ہو سکتی ہیں۔وفاقی دارالحکومت میں سرکاری سکولوں کی عمارتوں کو باقی ملک کے سکولوں کیلئے ماڈل بنانے کیلئے وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کو اقدام لینے چاہیں۔ یہ بچوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے جنہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے.
ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنونیئر کمیٹی سینیٹر رانا مقبول احمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سرکاری سکولوں کی مرمت و تزین وآرائش اور تعلیم کے حوالے سے بہتر سہولیات کی فراہمی کے علاوہ بیرسٹر محمد علی خان سیف کے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پی ایچ ڈی کے طالبعلموں کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے مرتب کیے گئے رولز اور مضامین کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز انجینئر رخسانہ زبیری، محمد علی سیف اور جاوید عباسی کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت سید انوارالحسن بخاری،جوائنٹ سیکرٹری وفاقی تعلیم انعام جاوید،ڈائریکٹر فنانس منیجمنٹ ایف ڈی ای امبر سلطانہ،ممبر فنانس ایچ ای سی و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
کنونیئر کمیٹی سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں سرکاری سکولوں کی عمارتوں کو باقی ملک کے سکولوں کیلئے ماڈل بنانے کیلئے وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کو اقدام لینے چاہیں۔ یہ بچوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے جنہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ سرکاری سکولوں کی حالت ایسی ہے جہاں مرمت انتہائی ضروری ہے۔ خدانخواستہ اگر عمارت منہدم ہو گئی تو اس سے اموات بھی ہو سکتی ہیں۔ کنونیئر کمیٹی سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ کیا وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کی طرف سے کیااس حوالے سے کوئی احتجاج یا خطوط لکھے گئے ہیں؟ اگر ہیں تو وہ کمیٹی کو فراہم کیے جائیں۔ ذیلی کمیٹی کو ایڈیشنل سیکرٹری وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے آگاہ کیا کہ گزشتہ اجلاس میں بتایا تھا کہ اس حوالے سے ایک سروے کرایا جائے گا۔
فیڈرل ڈائریکٹو ریٹ ایجوکیشن کے ساتھ مل کر اسلام آباد کے 423 سکولوں کا سروے کرایا گیا ہے اور ایک معیار کے مطابق صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جو بجٹ وزارت خزانہ سے ملتا ہے اس کا 90 فیصد ای آر ای (ملازمین کے اخراجات)کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے۔ مرمت اور تزین و آرائش کا کام پی ڈبلیو ڈی سے کرانے کے پابند ہیں جو عام ٹھیکداروں سے زیادہ ٹھیکہ مانگتے ہیں۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کے سکولوں اور کالجز کاا سٹرکچر انتہائی بہتر تھا مگر عدم توجہ کی وجہ سے حالت زار کافی خراب ہے۔یہ کمیٹی مختلف سکولوں کا جائزہ لے کر حالت سے آگاہی حاصل کر ے گی۔
سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں سرکاری سکولوں کی حالت بہت خراب ہے اور وہاں کے بچے جو پانی پیتے ہیں وہ مختلف بیماریوں کی آماجگاہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمسائیہ ممالک میں سرکاری سکولوں کی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے بھی نمایاں کارکردگی دیکھنے میں آئی ہے۔سکولوں کے اسٹرکچرز کافی وسیع ہیں جنہیں کمیونٹی سینٹر کے طور پر استعمال میں لایا جا سکتا ہے جس سے خاصی آمدنی حاصل ہوگی جو سکولوں پر خرچ کرنے سے بہتری لائی جا سکتی ہے۔جس پر کنونیئر کمیٹی سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ وزارت وفاقی تعلیم اس حوالے سے ایک منصوبہ تیار کر کے کمیٹی کو رپورٹ فراہم کرے کہ کس طرح اسلام آباد کے سکولوں کی عمارتوں اور کارکردگی کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ پی ایچ ڈی کے طالبعلموں کے نصاب میں غیر متعلقہ مضامین شامل کیے جاتے ہیں جس سے انہیں فائدہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ قانون کے شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والے کو ریاضی اور معاشیات کے مضامین دینا کہاں کا انصاف ہے۔انہوں نے کہ کہ رولز ہمارے لیے ہوتے ہیں نہ کہ عوام رولز کیلئے ہوتی ہے۔جس پر ایچ ای سی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک بورڈ آف سٹڈی کا محکمہ ہے جو مضامین کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس بورڈ کے 5 سے7 ممبران ہوتے ہیں۔جس پر کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ کیا ایسی کوئی کمیٹی ہے جو اس بورڈ کی کارکردگی کا جائزہ لے۔ ایچ ای سی 15 دن کے اندر اس مسئلے کے حوالے سے کمیٹی کو رپورٹ فراہم کر ے۔
محمد اویس