معاف کیجیے گا! تحریر: ماریہ ملک

0
66

معاف کیجیے گا! تحریر: ماریہ ملک

فروری 2016 کی شام 8 گھنٹے کے لمبے ہوائی سفر کے بعد جب میں اپنے ہوسٹل میں پہنچی تو سفری تھکاوٹ اور گرد و نواح کے ماحول کا بیگانہ پن جسم و دماغ پر حاوی تھا۔ لیکن اس کے باوجود اُس رات دِل میں اپنی آرزو بر آنے کی خوشی اور نئی صبح کے انتظار میں دِل پُر جوش تھا جس کی وجہ سے نیند تھی کہ جیسے روٹھ سی گئی ہو۔۔۔۔۔ طرح طرح کے خیالات وسوالات زہن و قلب کو عجیب کیفیت میں مبتلا کیے ہوئے تھے۔۔۔۔

اس دیارِ غیر کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی میں پہلا دِن کیسا ہو گا؟
ساتھی طلبا کیسے ہوں گے؟ اُن کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ہو سکے گی یا نہیں؟
میرے لیکچرار کیسے ہوں گے؟ اُن کا انداز تکلم اور اندازِ تعلیم و تربیت کیسا ہو گا؟
مجھے اچھے انداز میں ویلکم کیا جائے گا یا ایک نئی طالبہ ہونے کے ناطے میرا مزاق اُڑایا جائے گا؟

غرضیکہ اس طرح کے بیشُمار سوالات دِل و دماغ کو گھیرے ہوئے تھے۔ انہیں خیالات میں گُم کب آنکھ لگی کُچھ پتہ ہی نہ چلا۔۔۔۔۔۔

میری اور میرے والد کی یہ خواہش تھی کہ میں بیرونِ ملک اپنی ڈگری مکمل کروں۔ گو امی جان کو یہ بات زیادہ پسند نہی تھی لیکن اُنہوں نے بھی میری خواہش کے سامنے زیادہ رکاوٹ کھڑی نہی کی۔
بالا خر وہ صبحِ نو آگئی جِس کا شدت سے انتظار تھا۔ یونیورسٹی کے پہلےدِن کے جوش و خروش میں نہ بھوک تھی نا کسی اور چیز کی تمنا۔ جلدی جلدی تیار ہوئی اور وقت سے پہلے ہی یونیورسٹی کے لئے نکل پڑی۔ ہوسٹل میں مقیم دیگر طلبا کی رائنمائی، مدد، شفقت اور برتاؤ نے بہت متاثر کیا۔
یونیورسٹی میں بھی محسوس کیا کہ ہر کوئی بہت نرمی اور محبت بھرے انداز میں ہمکلام ہوتا ہے۔ بات بات پر ہر کسی کے Excuse me, Please, Sorry جیسے الفاظ کے ساتھ ساتھ ہلکی سی مسکراہٹ زیرِ لب تھی
میری کلاس میں تمام طلبا نے بہت اچھے انداز میں مجھے ویلکم کیا۔ لیکچرار اور طلبا کی اس دیے جانے والی خصوصی توجہ اور دوستانہ ماحول نے میرے اعتماد کو سہارا دیا۔ یقیناً یہی وہ حسنِ اخلاق ہوتا ہے جو دِلوں کو ایک دوسرے کے قریب اور کدورتوں کو رفع کرتا ہے۔
جہاں اچھے اخلاق ہوں وہاں بغض، کینہ اور نفرت جیسے دلی امراض نہی پنپتے۔ برطانیہ میں میرے 2 برس کے دورِ طالبعلمی میں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہی اچھے اخلاق تھے۔
دوکاندار ہو یا گاہک، بس ڈرائیور ہو یا مسافر، طالبعلم ہو یا استاد، شوہر ہو یا بیوی، عام راہ گُزر ہو یا ہمسایہ، کاروباری شخص ہو یا ملازم، بڑا ہو یاچھوٹا غرضیکہ راہ چلتے، سفر کرتے، خریداری کرتے ہر قسم کے افعال و عوامل میں آپ کو یہ مشاہدہ کرنے کو ملتا ہے کہ ہر کسی کی تربیت میں یہ چند خصوصیات ہر کسی کی طبیعت میں گویا کہ نقش کر دی گئی ہیں

// نرمی
// مسکراہٹ
// خوش کلامی
// عفو و درگز کا جزبہ
// جزبہِ مدد و ہمدردی

یقیناً یہ سب خصوصیات حسنِ اخلاق کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہی وہ عادات و خصوصیاتِ ہیں جو ایک فرد کو معاشرے میں پسندیدہ و جازبِ نظر بناتی ہیں۔
اور چونکہ فرد سے معاشرہ بنتا ہے، تو افراد کے حسنِ اخلاق جیسا وصف ہی معاشرہ کو خوبصورت اور لطف و کرم کا منبع بنا سکتا ہے۔
یقیناً مغرب میں بھی برائی اور بد سلوکی کی مثالیں موجود ہیں لیکن مغرب کا عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ مہذب اور سُلجھے ہوئے ہیں۔ اور یہی تاثر اصل میں اچھے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔
ہماری ایک تعداد ہے جو مغرب کی طرح ترقی یافتہ اور ماڈرن بننے کی خواہشمند ہے۔ اعلٰی تعلیم، فیشن اور چال ڈھال میں مغربی تہزیب کےدلدادہ افراد بھی اخلاقی پستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ تھوڑی سی دولت یا بڑا عہدہ ملنے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ دولت و عہدہ میں اپنے سے کم کو انسان سمجھنے سے بھی عاری نظر آتے ہیں۔ غرور و تکبر کی یہ چلتی پھرتی مورتیں غریب و پسماندہ افراد سے اچھے انداز میں بات کرنے، ہاتھ ملانے اور مسکرا کر بات کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
یہ عادات صرف امیر لوگوں میں ہی نہی بلکہ تقریباً معاشرہ کے ہرفرد میں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں گویا کہ ہم مسکرا کر نرمی اور شفقت سے بات کرنے کو کوئی عیب سمجھتے ہیں۔
میرے 2 سال کے تعلیمی دور میں مغربی معاشرے میں اخلاقیات و مساوات کا مشاہدہ بکثرت ہوا لیکن بطورِ مسلمان میں یہ فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ مغربی معاشرے میں پائی جانے والی یہ تمام خصوصیات اسلامی تعلیم و تربیت میں مذکور حسنِ اخلاق کا عشرِ عشیر بھی نہی۔
اسلام ایک مکمل ظابطۂ حیات ہے اور بقول قرآن نبی کریم ‎ﷺ کی زندگی ایک بہترین نمونہ۔ لیکن جوں جوں ہم اسلامی تعلمات سے دور ہوتے چلے گئے توں توں ہمارے اخلاقیات پستی و جہالت کا شکار ہوتے گئے۔
اسلام ہمیں ہر ایک سے حسنِ اخلاق سے پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے۔ غرور، تکبر، غیبت، جھوٹ، بہتان، گالی گلوچ، چغلی، بے حیائی، فریب ودھوکہ، ناپ تول میں کمی، والدین و پڑوسی کے حقوق، بہن بھائی و رشتہ داروں کے حقوق، مالک و ملازم، دوکاندار و گاہک، مسافر و مقیم کے حقوق و فرائض غرضیکہ ہر ہر شعبہ و مقام و مرتبہ کے بارے میں حقوق و فرائض اور حلال و حرام کی واضح تعلیمات دینِ اسلام میں مذکور ہیں۔
حسنِ اخلاق یقیناً بہت وسیع عادات و خصوصیات پر محیط ہے۔ اور ہمارے ہیارے مذہب میں حسنِ اخلاق کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کیا بتائی جا سکتی ہے:

چنانچہ فرمانِ مصطفٰے ﷺ ہے کہ

“ أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا۔”
ترجمہ: سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے

گویا اگر ہم کامل (مکمل) ایمان کے وصف سے متصف ہونا چاہتے ہیں تو اپنی اخلاقیات کو تعلیماتِ اسلام کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔

نبی کریم ‎ﷺ کے حسن اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے الله تبارک و تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ
ترجمہ:
“اور بیشک تم یقینا عظیم اخلاق پر ہو ۔”

تیرے خُلق کو حق نے عظیم کہا
تِری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تُجھ سا ہُوا ہے نہ ہو گا شہا
تیرے خالِقِ حسن و ادا کی قسم

قارئین ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ااِن تعلیمات کو حاصل کریں اور پھر اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے اخلاقیات کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ والدین چھوٹی عمر سے اولاد کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ سکول و کالجز کی سطح پر دیگر شعبوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ہر خاص و عام معاشرے میں حسنِ اخلاق کی چلتی پھرتی تصویر بن جائے تو یقیناً ہمارا معاشرہ حسنِ اخلاق کا نمونہ بن کر ابھرے گا۔
تحریر: ماریہ ملک

Leave a reply