قادروکارساز اللہ رب العزت نے قرآن مجید فرقان حمیدکی سورة المائدة میںاِرشاد فرمایا ” کسی ایک اِنسان کاناحق قتل پوری انسانیت کاقتل جبکہ ایک انسان کی جان بچاناپوری انسانیت کوبچانے کے مترداف ہے”۔نام نہا د روزگار یاشوق کیلئے دوسروں کی زندگی سے کھیلنے والے معاشرے کے مٹھی بھر گمراہ لوگ زندگیاں بچانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگانیوالے پولیس اہلکاروں کوگالیاں دیتے ہیں ۔اے کاش پتنگ سازی اورپتنگ بازی کے” عادی” اور”فسادی” اِس فرمان الٰہی پرغور کرتے ہوئے اپنا ا پنا گھناﺅناکاروباربند اورمذموم شوق ترک کردیں کیونکہ پتنگ بازی ایک ایسا”جنون” ہے جس نے اب تک ہزاروں انسانوںکوان کے اپنے "خون” میں ڈبودیا ہے۔پتنگ ساز اورپتنگ بازیادرکھیں اللہ ربّ العزت کے حقوق کی معافی بھی کافی ہے لیکن حقوق العباد میں معافی کے ساتھ ساتھ تلافی بھی از بس ضروری ہے ۔ معافی اورتلافی کے بغیر والے معاملات میں فیصلہ روزِمحشر ہوگا۔اپنے ناپسندیدہ معاملات کے فیصلے دنیا میں ہی کرواکے جانابہتر ہے کیونکہ حشر کے معاملات بہت نازک ترین ہوں گے۔پتنگ ساز اورپتنگ باز یادرکھیں وہ جانے انجانے میں ہرچندروز بعد کسی نہ کسی بیگناہ انسان کی زندگی کی ڈور کاٹ رہے ہیں اوریہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ قتل عمد ہے لہٰذاءاگر قانون کی کمزوری ،بیچارگی،عدم دلچسپی یاناقص ترجیحات کے سبب انہیں اِس جہان میں ا پنے ہاتھوں کسی بیگناہ کے قتل کی سزانہ ملی تواُس جہان میں مخصوص”گناہ” کابھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔دھاتی ڈور سے بیگناہوں کادلخراش قتل وہ” درندگی” ہے جس پرقاتل کو”شرمندگی "تک نہیں کیونکہ وہ درندے اپنے گناہ اورانجام سے انجان ہوتے ہیں۔ہماری "زندگی” معبود کی” بندگی” کیلئے ہے لہٰذاء”درندگی” کامظاہرہ کرنیوالے عناصرقابل گرفت اورناقابل رحم ہیں۔پتنگ سازوں اور پتنگ بازوں کی دھاتی ڈورہرگزکسی شہری کی قاتل نہیں کیونکہ وہ عناصر خود ان بیگناہوں کے قتل میں براہ راست ملوث اور زیردفعہ 302 سپیڈی ٹرائل کے مستحق ہیں ۔پتنگ ساز اورپتنگ باز وہ بدنصیب ہیں جوخودتوایک دن مرجاتے ہیں لیکن ان کاگناہ زندہ رہتاہے ۔اب ہمارے ہاں ہرشب برات کو سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے معافی طلب کی جاتی ہے اورپھر سال بھر ہم دوسروں کوپریشان اوران کے حقوق پامال کرتے ہیں۔گردن پرڈورپھرنے سے مارے جانیوالے کاکوئی نہ کوئی قاتل ضرورہوتا ہے لیکن اسے اپنے اس گھناﺅنے فعل کی اطلاع نہیں ہوتی اوروہ مزے کی نیندسوتاہے لیکن جب اُس کی موت کے بعدرشتہ داراسے اندھیری قبر میں اتاردیں گے توپھر وہاں وہ یقیناعذاب کاسامناکرے گا۔اپنے ہاتھوںکسی بیگناہ کی ناحق موت کے بعد کوئی قاتل مرقد میں چین سے نہیں رہ سکتا ۔
جومحکمہ پولیس سے نفرت کرتے اوراہلکاروںکو گالیاں دیتے ہیں وہ یادرکھیں ہماری اورہمارے پیاروں کی زندگی کی حفاظت ان کافرض منصبی ہے اوراپنا فرض اداکرتے ہوئے اب تک پندرہ سوسے زائد پولیس آفیسر اوراہلکاروں نے جام شہادت نوش کیاہے جبکہ جوہرٹاﺅن بم دھماکے میں زخمی باوردی پولیس اہلکار کا پراعتماد چہرہ بھی سب نے دیکھا ہے لہٰذاءکسی آفیسراوراہلکار کاناپسندیدہ انفرادی فعل دیکھتے ہوئے محکمہ پولیس کی قابل رشک اجتماعی خدمات سے انکار اورقربانیوں کوفراموش نہ کریں۔یادرکھیں ون ویلنگ اورپتنگ بازی "خون” اور”جنون” کاتاریک راستہ اورقیمتی انسانی جانوں کیلئے مہلک ہے۔ ہمارے پیاروں کی زندگی کوون ویلنگ اورپتنگ بازی کی صورت میں انتہائی مہلک خطرات سے بچانے کیلئے ہمارے وردی پوش سرفروش اپنی زندگیاں تک داﺅپرلگادیتے ہیں اسلئے ان کی قدر،عزت اوران پراعتماد کے ساتھ ساتھ ان سے بھرپورتعاون کریں۔ ہماری خدمت اورحفاظت پولیس اہلکاروں کافرض جبکہ ان کی مدد کرناشہریوں پرقرض ہے ۔ ڈور سے ہونیوالے قتل عام کے بعد کوئی زندہ ضمیر پتنگ سازی اورپتنگ بازی کاتصور بھی نہیں کرسکتا۔مختلف واقعات میںشاہراہو ں پر جاتے ہوئے شہ رگ پرڈور پھرنے سے کئی معصوم بچوں سمیت مردوزن تڑپ تڑپ کرموت کی گھاٹ اترے اورباری باری ان کاجنازہ اٹھالہٰذاءاس کے باوجود پتنگ سازی اورپتنگ بازی سے باز نہ آنیوالے” لوگ” یقینامردہ ضمیراورانسانیت کیلئے "روگ” ہیں۔پتنگ بازی کاحامی مٹھی بھر طبقہ اس نام نہاد ثقافت کوزندہ رکھنا چاہتا ہے جبکہ اس سے بیزار لوگ غالب اکثریت میں ہوتے ہوئے بھی خاموش ہیں جبکہ ا ن کی اس مجرمانہ خاموشی نے انہیں قاتل بنادیا ہے کیونکہ جہاں کسی مقتول کا قاتل بے نام ونشاں ہووہاں معاشرے کو قتل میں ملوث سمجھاجاتاہے لہٰذاءمعاشرے کاہرفرد اورطبقہ ون ویلنگ ،پتنگ سازی ،پتنگ بازی،جعلی ادویات کی تیاری وتجارت،بچوں سمیت خواتین پرجنسی تشدد ،منشیات کی فروخت اوراس کا استعمال روکنے کیلئے اپنااپناکلیدی کرداراداکرے۔جس چاردیواری میں پتنگ سازی اورجس چھت پرپتنگ بازی ہوتی ہے وہاں آس پاس پڑوسی توہوتے ہیں توپھروہ کیوں پولیس کواطلاع نہیں کرتے،میں ان شہریوں کو پتنگ سازوں ،پتنگ بازو ں کاسہولت کار اورشریک مجرم سمجھتاہوں ،انہیں بھی قتل عمد کے مقدمات میں نامزد کیاجائے،خدانخواستہ آئندہ ڈور سے قتل ہونیوالے بچے یا شہری کاتعلق ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے سواس وقت سے ڈریں اورایک معاون کی طرح اپنی محافظ پولیس کی مددکریں ۔
ہمارے ہاںڈورکوقاتل کہاجاتا ہے توپھریقینامرنیوالے مقتول ہیں لہٰذاءانہیں جاںبحق کہنا انصاف نہیں۔ہر وہ تھانہ جس کی حدودمیں ڈور سے کسی شہری کاقتل ہووہ نامعلوم قاتل کیخلاف قتل عمد کی دفعات کے تحت مقدمات درج اوربعدازاں وہاں سے گرفتارہونیوالے شرپسند پتنگ سازوں اورپتنگ بازوں کوان مقدمات میں نامزد اورچالان کرے ۔آئے روزدھاتی ڈور پھرنے سے قیمتی انسانی جانوں کاضیاع قومی المیہ ہے ،اگر دھاتی ڈور سے اموات محض ایک حادثہ ہیں توپھر ایس ایچ اوزکومعطل کیوں کیاجاتا ہے،یہ معطلی کوئی راہ حل نہیں۔پولیس حکام اپنے کس کس ماتحت ایس ایچ او کومعطل کریں گے جبکہ ا یس ایچ او کی معطلی کے باوجود پتنگ بازی کاسلسلہ معطل نہیں ہوتا۔ پولیس تنہا پتنگ سازوں اورپتنگ بازوں کا ناطقہ بند نہیںکرسکتی ، اپنے پیاروں کو” ڈور” سے بچانے کیلئے شہریوں کی طرف سے” ڈومور” ناگزیر ہے۔ شاہراہوں پررواں دواں بیگناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے درندے تختہ دار کے مستحق ہیں ۔ راقم کی تجویز کی روشنی میں پولیس نے پتنگ بازوں کیخلاف کریک ڈاﺅن کیلئے ڈرون کیمروں کا استعمال شروع کردیا ہے ، میرے پاس مزید انتہائی موثر تجاویزہیں لیکن آئی جی پنجاب سمیت کوئی سننے کیلئے تیار نہیں کیونکہ کسی مقتول سے ان کاخونی رشتہ نہیں ہے ۔ حکمران اور پولیس حکام خون کی ہولی روکنے کیلئے مختلف طبقات کی نمائندہ شخصیات کے ساتھ مکالمے کااہتمام کریں ۔پتنگ بازی ،منشیات اورجنسی درندگی سمیت مختلف سماجی اورمعاشرتی برائیوں سے نجات کیلئے تعلیمی نصاب ،اساتذہ اورعلماءحضرات سے بھرپور مدد لی جاسکتی ہے ۔پتنگ سازو ں اورپتنگ بازوں کیخلاف منظم اورموثر کریک ڈاﺅن کیلئے” ابابیل سکواڈ” بنایا جبکہ باشعور شہری رضامند ہوں تو ان سے رضاکارانہ کام لیاجائے اورحکام ان کانام صیغہ رازمیں رکھیں۔پولیس پتنگ سازوں اورپتنگ بازوں کامحاصرہ اورمحاسبہ کرنے کیلئے اپنے پرائیویٹ انفارمرز کومتحرک کرے۔
لاہور کے پروفیشنل اورجہاندیدہ سی سی پی او ایڈیشنل آئی جی غلام محمودڈوگر جبکہ لاہورکے نیک نیت اورزیرک ڈ ی آئی جی آپریشنز ساجدکیانی کی انتھک قیادت میں ان کے مستعد ٹیم ممبرز پتنگ سازوں اورپتنگ بازوں کے تعاقب کرتے ہوئے ان کے گرد گھیرا تنگ کررہے ہیں۔غلام محمودڈوگر اورساجدکیانی تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے کوشاں اوراس نیت سے مختلف تھانوںکادورہ کرتے ہیں ،وہ تھانہ فیکٹری ایریا ،کوٹ لکھپت اورنواب ٹاﺅن کی عمارتوں کامعائنہ کرنے کیلئے وہاں کاسپیشل وزٹ کریں۔تھانہ” نواب ٹاﺅن” کانام سن کرلگتا ہے یہ تھانوںکا”نواب” ہوگالیکن تھانہ” نواب” ٹاﺅن کی عمارت کسی جھونپڑی اورجھگی سے بدتر ہے جبکہ اس کے اطراف میں جھاڑیاں خطرے سے خالی نہیں ۔ تھانہ فیکٹری ایریا کو ایک کھنڈر نمابوسیدہ عمارت میں منتقل کرنااور اہلکاروں کی زندگی داﺅپرلگاناانصاف نہیں، یقینا کوئی ایس پی دوگھنٹوں تک اس عمارت میں نہیں بیٹھ سکتا،اسے فوری کسی جدید اورمحفوظ عمارت میں شفٹ کیاجائے ۔ لاہورپولیس بیک وقت کئی محاذوں پرسربکف ہے تاہم غلام محمودڈوگر اور ساجدکیانی کے سخت،درست اوردوررس اقدامات سے پتنگ بازی پر کافی حدتک قابوپالیا گیا ہے لیکن ابھی انہیں مزید کام کرنا ہوگا ۔روزانہ بنیادوں پرلاہور کے مختلف تھانوں کی حدود سے پتنگ ساز اورپتنگ باز گرفتار ہورہے ہیں لیکن قوانین میں سقم کے نتیجہ میں انہیں فوری ضمانت ملنا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔چندگھنٹوں کی گرفتاری کے بعد رہائی اورپولیس کی جگ ہنسائی سے معاشرے کو پتنگ سازی اورپتنگ بازی کے نتیجہ میں ہونیوالے کشت وخون سے نجات نہیں ملے گی ۔پتنگ ساز اورپتنگ بازدرندے اورقاتل ہیں لہٰذاءان کے شر سے بیگناہ شہریوں کی حفاظت کیلئے ان درندوں کو زندانوں میں رکھیں،یادرہے ہرقاتل کی طرح ڈور سے شہریوں کوقتل کرنیوالے بھی تختہ دار کے مستحق ہیں۔ سی سی پی او ایڈیشنل آئی جی غلام محمودڈوگر اور ڈ ی آئی جی آپریشنز لاہور ساجدکیانی پنجاب کی منتخب سیاسی قیادت سے ملاقات کریں اور اپنے تجربات ومشاہدات کی روشنی میںانہیں تعمیری تجاویز دیں کیونکہ کوئی معاشرہ سخت "قانون "بنائے بغیر” قانون شکنی” نہیں روک سکتا ۔ منتخب ایوان معاشرے کودرپیش چیلنجز کودیکھتے ہوئے قانون سازی کریں ،پتنگ سازی اورپتنگ بازی کاراستہ صرف© "قانون سازی” سے روکاجاسکتا ہے۔








