کہاں گئی میری جنت . تحریر: ریحانہ جدون

انسان کو جب تک دکھ, تکلیفیں نہیں ملتیں اُسے خوشیوں کا احساس نہیں ہوتا اور بعض دفعہ ایسا دکھ ملتا ہے کہ وہ گزرے لمحات کو یاد کرکے روتا ہے کہ وہ وقت کتنا اچھا تھا…
پھر چاہ کر بھی وہ وقت انسان واپس نہیں لا سکتا, وہ ایک یاد بن کر ہمیں اس چیز کا احساس بھی دلاتا رہتا ہے کہ تب ہم اتنے لاعلم, اتنے لاپروا کیوں تھے, تب ہم نے ایسا کیوں سوچا کہ تھا کہ یہ وقت ہمیشہ ہی رہے گا…
اپنی زندگی میں مشغول ایسے تھے کہ کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایک پل میں سب کی زندگی بدل جائے گی کہ پھر ہنسنے کا دل کریگا بھی تو ….. آ نکھوں میں آ نسو آ جائیں گے.
میرا خاموش رہنا صرف میری ماں ہی محسوس کرتیں تھیں, میرے چہرے کو اداس دیکھ کر وہ سمجھ جاتیں تھیں کہ آ ج میرا دل اداس ہے.
زندگی پُرسکون رواں دواں تھیں کہ ایک صبح 4:30 پہ سوات کے پولیس اسٹیشن سے کال آ ئی کہ ایک گاڑی نے ہماری گاڑی کو پیچھے سے ہٹ کیا ( جس کا ڈرائیور سو گیا تھا) اور اس ایکسیڈنٹ میں میرے بھائی کی موت ہوگئی ہے یہ خبر کسی قیامت سے کم نہیں تھیں بھائی کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوگئے
اُس لمحے کسی کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے .
سبھی دُکھی تھے پر میری ماں کو کسی طرح صبر نہیں آ رہا تھا وہ بس ایک ہی بات کہہ جارہی تھیں میری زندگی کا وسیلہ میرا بیٹا مجھے کیسے چھوڑ کے جاسکتا ہے. سب انکو تسلیاں دے رہے تھے بھائی کی میت شام کو گھر پہنچی ایک کہرام برپا تھا ہر آ نکھ اشک بار تھی میری ماں بار بار بے ہوش ہوجاتیں تھیں آ دھی آ دھی رات اٹھ کے بھائی کی قبر پہ چلی جاتیں پھر شاید میری ماں کی تڑپ ہی تھی کہ بھائی کے چالیسویں کی رات میری ماں مجھے چھوڑ کر بھائی کے پاس چلی گئیں بھائی کا ایکسیڈنٹ رات 1:30 کے قریب ہوا اور یہی وقت میری ماں کو ہارٹ اٹیک ہوا اور 10 منٹ میں ہی میری ماں مجھے چھوڑ کے بھائی کے پاس چلی گئیں…

اُس رات میرے ساتھ رات 12:15 تک بیٹھیں باتیں کرتیں رہیں, باتوں باتوں میں کچھ نصیحتیں کرتیں رہیں مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ اُنکی آ خری باتیں ہونگیں اور جن کا احساس اُنکی موت کے بعد ہُوا… انکی کہی یہ بات کہ بیٹا بڑا وہی ہوتا ہے جس کا دل بڑا ہوتا ہے تم سب سے چھوٹی ہو کوئی بات کہہ بھی جائے تو دل بڑا کرلیا کرو…
میں اب کس سے کہوں کہ ماں میرا دل اتنا بڑا نہیں ہے میری آ نکھوں کے آ گے سے آ پکا چہرہ ہٹتا ہی نہیں ہے..
میرے کانوں میں آ پکی آ واز گونجتی رہتی ہے, میں کسی محفل میں بھی جاتی ہوں تو میری آ نکھوں میں آ نسو آ جاتے ہیں.
میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ماں آ پ اسطرح اچانک سے مجھے چھوڑ جائیں گی.. کیا آ پ کے لئے بھائی ہی سب کچھ تھا..
ماں آ پ کے ہوتے میں نے کبھی خود خیال نہیں کیا کہ اب میں بڑی ہوگئی ہوں میری آ پ سے ضد کرکے بات منوانا ویسے ہی رہا جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے ضد کرکے منواتا ہے..
میں نے کئی لوگوں کی موت دیکھی میں نے کبھی ان لوگوں کے درد کو محسوس نہیں کیا جو کسی اپنے کی موت دے کے جاتی ہے…
میں سوچتی تھی کہ ماں باپ جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو انکی خدمت کی جاتی ہے جب بیمار ہوتے ہیں اُنکی خدمت کی جاتی ہے..
پر مجھ بدنصیب کو کیا معلوم تھا کہ ماں کی خدمت میرے نصیب میں ہے ہی نہیں,
میری ماں تو آخری دن تک میرا خیال کرتیں رہیں…
میری چیزیں سنبھال کے رکھنا اور پھر اُنکا یہ کہنا کہ میں کب تک تیری چیزوں کو سنبھالو گی..
پھر ماں سے کسی بات پہ ناراض ہوجانا اور انکا پھر میری پسند کی چیزیں ابو سے منگوانا…
ماں مجھے احساس ہوگیا ہے پر اب میرے پاس آپ نہیں ہو,
میں خود کو بہت ٹوٹا ہوا بہت ادھورا محسوس کرتی ہوں…
اب تو میں نے ناز نخرے کرنا بھی چھوڑ دیا ہے
ماں اب تو میں نے روٹھنا بھی چھوڑ دیا ہے…
ماں سب کا مقام اپنی اپنی جگہ خاص ہے پر ماں آ پکے گلے لگ کے خوشی یا غم کا رونا کسی اور کے ساتھ ممکن نہیں…
ایسا کوئی نہیں جو بنا پوچھے سمجھ جائے.. میری وہ بے فکر زندگی صرف آ پکے بدولت تھی ماں
میرے دل کی حالت بیان کرنے کو سمجھ نہیں آ تا الفاظ کہاں سے لاؤں بس اتنا ہی کہ

افسانہِ دلِ برباد کیا سناؤں ماں
اجڑ گئ میری دنیا کہاں میں جاؤں ماں
کہاں تلاش کروں ہائے اب متاعِ سکوں
کہاں گئی میری جنت ، کہاں سے لاؤں ” ماں "

Shares: