کراچی دنیا کے چھٹے بدترین رہائشی شہروں میں شامل ہوگیا جس پر کراچی کے شہری مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ پورے پاکستان کو ٪67 ریونیو اور سندھ کا ٪90 پرسنٹ ریونیو اکھٹا کرکے دینے پر کراچی کے شہری کچرے گٹر ملے پانی سیوریج کے ناکارہ نظام اور ٹوٹی سڑکوں کے ساتھ صحت کی سہولیات کے فقدان کے حقدار ہیں اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ یہ ہر سال ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ خیرات کرتے ہیں مگر مستحق تک کتنی پہنچتی ہے کوئی نہیں جانتا کیونکہ کراچی کا فقیر مقامی نہیں ہے سفید پوش لوگوں کا حق مارنے کی طرح سندھ اور وفاق بھی کراچی کا حق ہمیشہ سے مارتا آیا ہے کوٹہ سسٹم سے لیکر مردم شماریوں تک ہر چیز میں کراچی کی حق تلفی کی گئی مگر کراچی موجودہ اور سابق حکمرانوں نے ان کی امیدوں کو پورا کرنے کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دی ماسوائے پرویز مشرف کے دور حکومت نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کی نظامت میں کراچی نے عروس البلاد کراچی کا کچھ فیصد ہی حسن دیکھا مگر پیپلز پارٹی کی 13 سالوں کی محنت اور لگن نے کراچی کو کچراچی میں ایسا تبدیل کیا کے لوگ موئن جو دڑو کو بھول کر کراچی کی مثالیں پیش کرنے لگے ہیں احوال یہ ہے کے کراچی سی پورٹ اور ریونیو کی بہتات کے باوجود اپنے حصے کا آئینی حق مانگ تو رہا ہے مگر حکمرانوں میں دم خم نظر نہیں آتا موجودہ حکمرانوں کو دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کراچی کے حکمرانی کے دعویدار کہلاتے ہیں مگر سندھ وفاق پر اور وفاق سندھ پر کراچی سے تعصب کی بناء پر سوتیلی ماں جیسا سلوک کررہا ہے کا الزام عائد کرتے ہیں رہی ایم کیو ایم تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا وزارت لو سائٹ میں بیٹھ کر کبھی وفاق پر کبھی سندھ حکومت پر لسانی صوبے کے نعرے کے نام پر بلیک میل کرو کی سیاست پر عمل پیرا ہے کیونکہ شائد وہ اس بات کا یقین کرچکے ہیں کے کراچی والے اتنے بھولے ہیں کے ہماری کسی بھی کارکردگی کو پس پشت ڈال کر صرف مہاجر نعرے پر انہیں تاقیامت ووٹ ملتے رہیں گے حالانکہ 2018 کے الیکشن کا رزلٹ جیسا بھی رہا ہے ایم کیو ایم کو اس کے ووٹرز نے متنبہ کیا ہے کے سمبھل جاؤ حد تو یہ کے 2021 کے بلدیہ ٹاؤن کے حلقہ این اے 249 میں ایم کیو ایم ٹاپ فور میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی
بہرحال کراچی کا موسم اور کراچی والوں کا دماغ کب بدل جائے کوئی نہیں جانتا 2023 کے جنرل الیکشن سے پہلے شائد بلدیاتی انتخابات ہوجائے مشکل ہے مگر ناممکن نہیں اگر ایسا ہوا تو کراچی والوں کا انتخاب کیا ہوگا
دو بڑے کانٹے دار مقابلے کی امید کی جارہی ہیں اگر بلدیاتی انتخابات سیدھا ناظم کے لئے ہوئے تو کراچی کی پہلی پسند سید مصطفیٰ کمال ہی ہونگے یہ بات کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں سے بھی پوچھ لی جائے تو وہ انکاری نہیں ہوسکتا دوسرا مقابلہ یونین کونسل کی سطح پر ہونے والے انتخابات کی صورت میں اس وقت مشکل اختیار کر سکتا ہے جب کراچی کو ضلعی سطح پر مزید تقسیم کرنے کی پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے روک دیا جائے یا کورٹ سے ان پر حکم امتناعی جاری ہوجائیں تو کراچی میں اس بار مقابلہ پاک سر زمین پارٹی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مشترکہ طور پر ہوسکتا ہے کیونکہ بلدیہ ٹاؤن کے ضمنی انتخابات میں پاک سر زمین پارٹی نے پورے پاکستان کے سامنے اپنی کامیاب انتخابی مہم کے زریعے منوا لیا ہے اور لوگوں نے انہیں ناقابل یقین پزیرائی سے بھی نوازا ہے جو بھی ہے مصطفیٰ کمال اپنے ماضی کے کاموں کے حوالے سے اپنی مہم کو کامیاب طور پر عوام کے سامنے رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو کراچی اور حیدرآباد کے شہری علاقوں سے ان کی جیت کا تناسب بہت بھاری اکثریت سے نکلنے کا امکان ہے مصطفیٰ کمال اپنی روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی کانر میٹنگ کو مستقل جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی انتخابی مہم این اے 249 کے بعد رکی نہیں بلکہ جاری وساری ہے وہ کراچی حیدرآباد میرپور خاص کے دوروں کے دوران اپنے ذمے داران کو مستقل طور پر لوگوں کے درمیان تعلقات کو بحال رکھنے اور عوامی رابطوں کو فعال رکھنے کی تاکید کر رہے ہیں مصطفیٰ کمال خود بھی پارٹی کے دیگر ارکان کے ساتھ روز کسی نا کسی گلی محلے میں چھوٹے اور بڑے جلسے اور کارنر میٹنگ سے خطاب کرکے کراچی کے لوگوں تک ان کی محرومی ختم کرنے کا کیا فارمولا ہے بتا بھی رہے ہیں اور لوگوں میں موجود بے چینی کو اپنی سیاسی قوت کے طور پر اپنی رائے سے ملانے کی کامیاب انتخابی مہم پر کامیابی سے عمل پیرا بھی ہیں