علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب . تحریر: اقصیٰ یونس

0
66

Mعلم کی بدولت قوموں نے عروج پایا۔ علم نے آدمیت کو انسانیت کے رنگ میں ڈھالاورنہ آدمی کھانے پینے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کو اپنا عروج سمجھتا تھا۔ زندگی گزارنے کا مقصد نفسانی خواہشات کی تکمیل کے سوا کچھ نہ تھا۔ انسان تہذیب وثقافت سے عاری تھا۔ نیکی اور بدی کی تمیز سے نابلد تھا۔ علم نے تہذیب سکھائی۔ اچھائی اور برائی کی تمیز سکھائی۔ علم کا مقصد سمجھ بوجھ اور فہم و فراست میں پاکی حاصل کرنا ہے۔

کسی بھی ملک کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت ناگزیر ہے۔ ہمیشہ وہی قومیں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوئی جن کا تعلیمی نظام بہترین تھا ۔ تعلیم کیُ اہمیت سے انکا نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کا تعلیمی نظام معیار کے لحاظ سے 94 نمبر پر ہے – اور تعلیمی بجٹ کے لحاظ سے 126 نمبر پہ ہے – اس بات سے پاکستان کے تعلیمی نظام کی خستہ حالی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے-

پاکستان میں تعلیم کی نگرانی وفاقی وزارت تعلیم اور صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی کی جاتی ہے جبکہ وفاقی حکومت زیادہ تر نصاب کی ترقی ، منظوری اور تحقیق و ترقی کی مالی اعانت میں معاونت کرتی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25-A ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیار کی تعلیم فراہم کرے۔ "ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو اس طریقے سے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی ”

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 226903 سکول ،41018384 طلبہ 1535461 اساتذہ ہیں ۔ ان میں 180846 سرکاری ادارے جبکہ 80057 نجی ادارے شامل ہیں ۔ یعنی ہر 26 طلبہ کیلئے ایک استاد موجود ہے جبکہ پرائمری سکول میں حالات اس سے بھی زیادہ خستہ حال ہیں اور وہاں 31 طلبہ کیلئے فقط ایک استاد موجود ہے۔

پنجاب میں اس وقت سکولوں میں تقریباً نوے ہزار آسامیاں خالی ٹیچرز کی بھرتی کی منتظر ہیں اور پنجاب میں بچوں کی
تعلیمی استحصال روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے موجودہ حکومت اور وزیر تعلیم کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔

سرکاری اداروں کی زبو حالی اور تباہی کی ایک الگ داستان ہے، ایسے ادارے جہاں سہوتوں کے فقدان کی لمبی قطار ہے اور ڈیجیٹل پاکستان کا راگ الاپنے والے کسی ایک سرکاری سکول کا نام بتا دیں جہاں ڈیجیٹل طریقے اپناتے ہوئے بچوں میں علم کی شمع جلائی جاتی ہو۔ حال ہی میں ایک سرکاری سکول کے طالب علم سے بات کرنے کا موقع ملا اور یہ جان کر دل ہی بج گیا کہ وہاں کے اساتذہ بچوں کو انکے نام لینے کی بجائے گدھے ، الو, کالے ، موٹے جیسے القابات سے پکارتے ہیں ۔صرف یہی نہیں کچھ استاد ایسے بھی ہیں جو بچوں کو ان القابات کی بجائے گالیاں دے کر پکارتے ہیں ۔

آج بھی اسلام آباد کے اچھے سکولوں میں جہاں 15 سالوں کی ملازمت کے بعد پرائمری ٹیچر بھی 1 لاکھ روپیہ تنخواہ وصول کرتے ہیں،مگر جن نو نہالوں کو پرائمری کی سطح پر تخلیقی تعلیم دینی چاہئے،کتابوں اور بستوں سے 5 سے10 سال کے بچے جھکے کندھوں کے ساتھ خوف اور دہشت کی علامت بن کر سکول جاتے ہیں۔صبح ماں اور باپ کی ڈانٹ ڈپٹ ،سکول داخل ہوتے ہی سکول ٹیچر کی اونچی اور خوفناک آواز ان کے حوصلے اور سیکھنے کے عظم کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔کم از کم پرائمری کے دوران بچوں کو تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے،مگر گھر اور درسگاہوں میں کہاں تربیت ہوتی ہے،وہاں آج بھی A-Apple اور B-Bat کے علاوہ کچھ نہیں رٹایا جاتا۔

علامہ اقبال مغربی نظامِ تعلیم سے بہت نالاں تھے کیونکہ مغربی نظام تعلیم مادیت پرستی، عقل پرستی اور بے دینی و الحاد کا سبق دیتی ہے۔ اسی نظام تعلیم کی حقیقت کو علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں اس انداز سے پیش کیاکہ:
اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش

<Writer Aqsa Younas


 Aqsa Younas

Aqsa Younas is a Freelance Journalist Content Writer, Blogger/Columnist and Social Media Activist. He is associated with various leading digital media sites in Pakistan and writes columns on political, international as well as social issues. To find out more about her work on her Twitter account

  

 


https://twitter.com/AqsaRana890

Leave a reply