اسرائیل کا قیام صریحاً ایک ناجائز اور زیادتی پر مبنی عالمی پردھان منتریوں کا مکروہ فعل ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی ہمارے مکان کے ایک حصے پر زبردستی قبضہ جمالے اور پھر کہے کہ مجھے اپنا پڑوسی مان لو اور میرے حقوق ادا کرو۔ اسرائیل کا قیام ایک ناجائز پیدائش بنی جو بانی جس کو پاکستان کے قیام تک نا تسلیم کرنے کی قائد اعظم محمد علی جناح کی خارجہ پالیسی رہی ہے جو آج تک قائم ہے۔ پہلی عالمی جنگ جس میں خلافت اسلام کو نشانہ بنایا گیا اور تھیوڈر ہیزل نے یہودیوں کے لیے فلسطینی زمین دینے پر خلیفہ عبدلحمید ثانی رحمۃ اللہ کو انعامات کی پیشکش کی مگر عثمانی خون نے زوال کو تسلیم کرلیا مگر یہ ذلت قبول نہ کی۔ اسرائیل کا قیام نہ صرف مسلمانوں بلکل عالمی امن کے لیے رستہ زخم ہے، دہشت گردی کے مراکز اور معیشت کے تمام زخائر اسرائیل کے شکنجے میں ہیں اور عالمی میڈیا اسرائیل کی لونڈی کا کردار ادا کررہی ہیں کہ جھوٹی خبریں اور افواہیں اس سرعت کے ساتھ پھیلا رہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
فلسطینیوں کو اللہ حکمت دے کہ وہ آج تک اسرائیل کی بربریت کے سامانے چٹان بن کھڑے ہیں فلسطینیوں کی چوتھی نسل ہے جو یہود کا مقابلہ ایمان کیساتھ کررہی ہیں۔ ہر 2، 3 سال بعد اسرائیل اپنے ذاتی اور ریاستی مفادات کی تکمیل کے لیے مظلوم فلسطینیوں کے گھر اور زندگیوں پر میزائل اور دھماکے داغتے ہیں لیکن آج تک فلسطینیوں نے اپنے ایمان پر سودا نہیں کیا اور ہمت اور استقامت کیساتھ قبلہ اول کی حفاظت پر معمور ہیں۔ فلسطینیوں کا امت مسلمہ پر خاص احسان ہے کہ وہ عالمی امن کے دشمنوں کیساتھ طویل اور تاریخ ساز جنگ کررہے ہیں۔ قبلہ اول کی اس ے لوث محبت کے بارے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

بہت قریب ہے کہ ایک شخص کے پاس اس کے گھوڑے کی رسی کے برابر ایسی زمین کا ہونا جہاں سے اس کی نظر بیت المقدس پر پڑتی ہو ؛ اس کیلیے تمام دنیا سے بہتر ہو گا۔ (مستدرك الحاكم)
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی کئی نشتیں کرچکنے کے باوجود بھی ابھی تک کوئی واضح پالیسی نا بنا سکا، 1948 سے 1967 تک اور اب حال ہی میں اقوام متحدہ کی افواج کے باوجود اسرائیل امن معاہدہ توڑ فلسطینی آبادی میں گھس گیا اور مسجد الاقصیٰ میں فساد کرنے لگا۔ نا عالمی طاقتوں نے اس پر غور کیا اور نا اسرائیل نے کوئی عالمی معاہدوں پر عمل کیا۔

@de10thless

Shares: