ہمارا تعلیمی نظام اور بچوں کی تعلیم کے مسائل تحریر: چوہدری عطا محمد

0
84

ملک خدا داد اسلامی جہموریہ پاکستان میں عرصہ دراز سے تعلیمی شعبے میں صرف واجبی اور رسمی سرمایہ کاری نے ارض پاک میں ایک شدید تعلیمی بحران پیدا کر دیا ہے۔ اس معمولی سرمایہ کاری اور حکومتی توجہ اس شعبہ میں نہ دینے کی وجہ سے ارض پاک پاکستان کے بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد سکولوں میں جانے سے محروم ہے ہم سمجھتے ہیں۔ تعلیم کسی بھی قوم کی معاشی، معاشرتی، شعوری، اور اخلاقی ترقی میں سب سے اہم کردار ادا کرتی  ہے۔ اگر آج ہم اقوام عا لم یعنی پوری دنیا کی بات کی جاۓ تو دنیا میں جتنی بھی ترقی یافتہ اقوام ہیں، تقریبا سب ہی میں تعلیم کی شرح 90سے 95 فیصد ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے پیارے وطن اسلامی جہموریہ پاکستان کی بات کریں تو مطالعہ کے مطابق پانچ سے سولہ سال کی عمر تقریباً دو کروڑ چھبیس لاکھ بچے سکول نہیں جا سکے اور حالیہ برسوں میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ ارض پاک میں ان بچوں کے سکول نہ جانے کی سب سے بڑی وجہ سکولوں کی تعداد میں کمی تھی۔
جدید ٹیکنالوجی اور پوری دنیا میں تعلیمی نظام میں جدید صلاحیتیں پیدا کرنے والے اس دور میں ارض پاک میں اتنے بچوں کو آئینی ذمہ داری کے باوجود تعلیمی سہولتوں سے محروم رکھنا کسی بھی ترقی یافتہ اور مہذب ریاست کو زیب نہیں دیتا ہےاگر ہم اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں کی بات لریں تو اس کے مطابق پاکستان کو اپنی قومی پیداوار کا چار سے چھ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔ لیکن ہمارے حکمران صاحب اقتدار حلقے اس سے بہت ہی دور ہیں مجموعی قومی پیداوار کا بہت ہی کم حصہ تعلیم جیسے اہم شعبے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ معمولی رقم نہ صرف ارض پاک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر مزید تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے ناکافی ہے بلکہ مجموعی طور پر دنیا کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے معیار تعلیم کے ساتھ چلنے کے عمل پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔اور ہمارے بچے جدید ٹیکنالوجی کے نظام سے پیچھے رہ جاتے ہیں

حکومتی سطع پر سر ماۓ میں کمی کے باعث نجی سرمایہ کاروں نے اس میدان میں قدم رکھا اور اپنے پنجے گاڑھنے شروع کر دئیے اس میں بہت سارے ایسے سرمایہ کار بھی شامل ہوگے جن کا تعلیم کے شعبے سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ انہوں نے اسے محض ایک کاروبار سمجھا اور ایک منافع بخش بزنس کے طور پر اس شعبہ کو لیا اپنی تما م تر توجہ بہتر تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے کی بجائے صرف پیسہ بنانےاور زیادہ سے زیادہ منافع کما کر اپنے بینک بیلنس کو بڑھانے پر مرکوز رکھی۔ بہت سے تعلیمی ادارے داخلہ کھلنے اور تعلیمی سال کے مکمل ہونے کے ساتھ ہی نئی کلاسوں میں آنے والے طلباء کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ہر سال اشتہارات پر لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اس قدر اخراجات تو دور کی بات ہے تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے پر توجہ ہی نہیں دیتے اس سرمایہ کاری سے تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ تو ہوا جو دیکھنے میں ایک اچھی اقدام لگتا ہے مگر تعلیمی معیار کافی حد تک نیچے چلا گیا۔ اس خلا کو مذہبی مدرسوں نے بھی پر کرنے کی کوشش کی کیونکہ جو غریب طبقہ پرائیویٹ مہنگے تعلیم سسٹم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا انہوں نے اپنے بچوں کو مدارس تک ہی محدود کر دیا یہ مایوس کن صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس مسئلہ پر ہمارے حکمرانوں کو ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینی ہوگی تاکہ ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو ناخواندگی کے چنگل سے آزادی دلا سکیں ۔ اسی میں ارض پاک پاکستان کی ترقی کی بقا ہے۔اس امر میں سب سے ضروری بات اور زیادہ اہم بات شعبہ تعلیم کے بجٹ میں کھلے دل سے بڑا اضافہ ہے۔ ہمار حکمرانوں کو فوری طور پر اقوام متحدہ کے سفارش کردہ اعداد و شمار یعنی قومی پیداوار کا کم سے کم چار فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کر دینا چاہیے اور اس میں ہر سال نئے آنے والے بجٹ کو بتدریج بڑھا کر چھ فیصد تک لے جانا چاہیے، چاہے اس کے لیے دیگر اخراجات میں کمی کرنی پڑے۔ اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اچھی تعلیم کے بغیر کوئی قوم نہ تو ترقی کر سکتی اور نہ ہی اپنا دفاع کر سکتی۔یہاں یہ بات بھی کہتا چلوں سرکاری سکولوں میں بھی پرائیویٹ سکولوں کی طرح والدین کو ہر مہنے بلایا جاۓ اور والدین کو بچوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ یہ احساس دلایا جسکے کہ والدین کو ان سکولوں کی ملکیت کا احساس ہو اور وہ بھی ان سکولوں کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اور آخر میں ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کے ہر امیر گھرانے کا بچہ ہر غریب کے بچے سے تعلیمی لحاظ اور ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لحاظ سے اتنا ہی آگے ہے جتنا کہ اقوام عالم میں کوئی بھی ترقی یافتہ ملک ہمارے ملک سے آگے ہے ۔

@ChAttaMuhNatt

Leave a reply