صادق سنجرانی ایوان چلائیں گے یا گھر جائیں گے، فیصلہ آج ہو جائے گا
باغٰی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق تحریک عدم اعتماد پرایوان بالا میں اعتماد کی بڑی جنگ آج ہو گی ،حکومت اور اپوزیشن کانمبرز گیم کی بنیاد پر ٹکراؤ ہو گا ،بلاول بھٹو نے صادق سنجرانی کوایک بار پھر استعفا دینے کامشورہ دیا ہے، تا ہم صادق سنجرانی نے آخری دم تک لڑنے کا اعلان کیا ہے.
چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی، ن اور پیپلزپارٹی کے اندر بغاوت کا خدشہ؟ اہم خبر
اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے میر حاصل بزنجو کو اپنا امیدوار مقرر کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی ہے جس کے جواب میں حکومت اور ان کے اتحادیوں نے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کیخلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروائی ہے .
حاصل بزنجو، چیئرمین سینیٹ کے اپوزیشن کے متقفہ امیدوار،سینیٹر کب بنے؟
سینیٹ سیکریٹریٹ نے قرارداد پر رائے شماری کا طریقہ کار جاری کردیا ہے، سینیٹرز پر پولنگ بوتھ میں موبائل فون لے کر جانے پر پابندی عائد رہے گی، سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بیلٹ پیپرکسی کو دکھانا یا تصویر بنانا منع ہے، ووٹ کی رازداری کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا، قرارداد پررائے شماری خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوگی .
سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کسی رکن کابیلٹ پیپر ضائع ہو جائے تو واپس کرکے نیال ے سکے گا.
چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لئے اپوزیشن تقسیم، سراج الحق نے باغی ٹی وی سے گفتگو میں کیا کہا؟
واضح رہے کہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے سلسلہ میں آج ووٹنگ ہو گی، حکومت کی طرف سے بھی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی کامیابی کیلئے بھرپور رابطے کئے گئے ہیں، اسی طرح اپوزیشن جماعتیں میر حاصل بزنجو کی کامیابی کیلئے پرعزم نظر آتے ہیں.
چیئرمین سینیٹ کے امیدوار پر اپوزیشن کا ہو گیا اتفاق،کون ہو گا نیا چیئرمین سینیٹ؟
واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کا فیصلہ ہوا تھا اور رہبر کمیٹی نے اس فیصلے کی توثیق کی تھی .اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی میں بھی جماعت اسلامی نے شرکت نہیں کی تھی .
چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے پاس مطلوبہ اکثریت سے زائد کی تعداد موجود ہے، 104 رکنی ایوان میں سینیٹرز کی موجودہ تعداد 103 میں سے چیئرمین کی نشست کے لئے 53 ارکان کی حمایت درکارہے۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹرز کی تعداد 28، پیپلز پارٹی کے 20، نیشنل پارٹی کے 5، جمعیت علماء اسلام ف کے 4، پختونخوا میپ کے 2 اور اے این پی کا ایک رکن شامل ہے۔