متروک شدہ کوہ پیمائی کا لباس پہن کر اپنا شوق پورا کرنے والا علی سدپارہ کا نام 2016ء میں عالمی میڈیا میں گونجا کہ انھوں نے سردیوں کے موسم میں قاتل پہاڑ (نانگا پربت) کو منفی 52 کے درجہ حرارت اور تیز برفیلی آندھی کے باجود سر کرلیا ہے ۔ یہ ایک ایسا ریکارڈ تھا جس کی جتنی تعریف کی جاے اتنی کم ہے ۔ سردی کے موسم میں بغیر آکسیجن نانگا پربت کو سر کرلینا ایک منفرد ریکارڈ تھا جس کی شاید ہی کسی میں ہمت ہو ۔ علی سدپارہ نے نانگا پربت پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب علی سدپارہ کی گم شدگی کی اطلاع ملی تو ہر آنکھ نہ صرف اشک بار ہوئی بلکہ ہاتھ بھی دعا کے لیے اٹھے کہ علی سدپارہ مل جاے ۔علی سدپارہ کا پورٹر سے کوہ نوردی کا سفر جہاں اپنے اندر جہاں سموے ہوے ہے وہی پر اسباق در اسباق بھی ہیں جو نئے کوہ پیماؤں کو سیکھنے چاہیے ۔ علی سدپارہ کوہ پیمائی تشہیر کے لیے نہیں بلکہ اپنی تسکین کے لیے کرتے تھے گویا کہ انھیں برف پوش اور فلک بوس پہاڑوں سے عشق تھا ۔

علی سد پارہ پہلا پاکستانی کوہ پیما تھاجس نے 8 ہزار میٹر بلند دنیا کی سات چوٹیوں کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ پاکستان کی 5 بلند ترین چوٹیوں کو بھی سر کر چکا تھا جس میں 8611 میٹرز بلند K 2 بھی شامل ہے لیکن اب کی بار موسم علی سد پارہ کے حق میں نہ تھا ورنہ قاتل پہاڑ نانگا پربت کو سر کرنے کے بعد پہلے سے مفتوح ہو چکی کے ٹو چوٹی کی کیا حیثیت تھی؟ امسال فروری میں علی سدپارہ مع ساجد سدپارہ ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو کے ساتھ کےٹو کو سر کرنے کی مہم کو نکلے ۔ ساجد سدپارہ کو 8 ہزار میٹر کی بلندی پر ریگولیٹر خراب ہونے کی وجہ سے ساتھ چھوڑنا پڑا ۔ یہ آخری ملاقات تھی جو باپ کی اپنے بیٹے سے تھی ۔ بیٹا تو واپس آگیا جبکہ باقی تین افراد نے اپنی مہم جاری رکھی ۔ چند دنوں کے بھر پور ریسکیو آپریشن کے بعد بھی لاپتہ کوہ پیما نہ ملے تو انہیں مردہ قرار دیتے ہوئے ریسکیو آپریشن بند کردیا گیا لیکن ان کے بیٹے نے ازخود ریسکیو آپریشن جاری ر کھنے کا اعلان کیا ۔ٹویٹر پر علی سدپارہ نے 24 جولائی کو ٹویٹ کرتے ہوے بتایا کہ وہ علی سد پارہ کی تلاش کے لیے بوٹل نک اور اس سے آگے کے علاقوں میں چھان بین کریں گے ۔ اور پھر بیٹے کی محنت رنگ لائی اور انھیں اپنے والد علی سدپارہ اور دیگر دو کوہ پیماؤں کے لاشے مل گئے ہیں۔

کوہ پیمائی جہاں مہنگا ترین کام ہے وہی پر خطرناک حد خطرناک کام ہے ۔ علی سدپارہ کی زندگی جہاں مہم جوئی سے عبارت ہے وہی پر ان کی زندگی ثابت کرتی ہے کہ وسائل کے نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کچھ کر نہیں سکتا ۔ شروع میں ان کی مدد و حمایت کرنے والے نہ ہونے کے برابر تھے اور سرکاری سرپرستی تو پاکستان میں نصیب والوں کو ملتی ہے ۔خبروں کےمطابق چند ایک لالچی قسم کے افراد نے بعد ازاں سستی شہرت حاصل کرنے کی خاطر ان سے اپنی مرضی کے بیانات دلوانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ مردقلندر اپنی بات پر اڑا رہا ۔ ایسے منفرد لوگ قوموں کو کبھی کبھی میسر آتے ہیں اور زندہ قومیں ان کی زندگی میں ہی ان کی اہمیت سے واقف ہوتی ہیں ۔ بعدازمرگ اعزازات و انعام واکرام کا مطلب اپنی شہرت کے سوا کیا ہوتا ہے ؟ معذرت کے میں آج تھوڑا تلخ ہوگیا ہوں ۔ ہم اپنے سیاست دانوں کو سونے کے برتنوں میں کھانا کھلا کر ان کی ہوس مزید بڑھاتے ہیں لیکن ان اصلی نمایندگان قوم و ملت کو سرکاری سرپرستی تک دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں ۔ہمیں بطور قوم اپنے اجتماعی خیالات کو بدلنا ہوگا ہمیں تعین کرنا ہوگا کہ ہم کس راہ پر چل کر ترقی یافتہ ممالک میں کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ یہ صرف سیاست سے ممکن نہ ہوگا بلکہ ہمیں اس طرح کے معاملات میں بھی درد دل رکھ کر فضا ہموار کرنا ہوگی تاکہ علی سدپارہ جیسے لوگ پاکستان کا نام روشن کرسکیں اور حالیہ اولمپکس جیسا حال بنواکر مزید جگ ہنسائی کا باعث نہ بنیں ۔

Shares: