پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل کب تک قانون بن کر نافذ ہوجائے گا؟ قائمہ کمیٹی میں بحث
اسلام آباد(محمداویس)سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعلان کیا کہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل دس دن میں پارلیمنٹ میں پیش کردیں گے 45دن میں یہ قانون بن کر نافذ ہوجائے گا،بل پیش کرنے سے پہلے اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کرناچاہتےہیں ۔مالکان پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل کے خلاف اور ورکرحق میں ہیں ،مالکان چاہتے ہیں کہ بل سے ٹرئی بیونل نکال دیں اورجرمانہ کم کردیں تو ان کویہ بل قبول ہے ،پاکستان میں میڈیا ورکرز کے ساتھ میڈیا مالکان عرصہ دراز سے صحیح سلوک نہیں کر رہے ،پیپلز پارٹی اور ن لیگ مالکان کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں ورکرز کے ساتھ نہیں،
کمیٹی میں اپوزیشن ارکان کی عدم شرکت،پیپلزپارٹی کے ارکان نے اجلاس سے واک آوٹ کیا۔سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات کا سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت میں پاک چائنہ فریڈشپ سنٹر میں شروع ہوا۔چیرمین سینیٹر فیصل جاوید کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی اطلاعات کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ہے۔ مشترکہ اجلاس پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( پی ایم ڈی اے ) پر بریفنگ دی جائے گی۔اجلاس میں سینیٹ قائمہ کمیٹی کے رکن سینیٹرعلی ظفر،سینیٹر انور لال اور سینیٹر مصطفیٰ نوازکھوکھر نے شرکت کی۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات کی طرف سے ناصر خان موسیٰ زئی نے کمیٹی کی صدارت کی۔جبکہ ارکان میں اکرام چیمہ،آفتاب جہانگیر اور صائمہ ندیم نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری ، فرخ حبیب اجلاس میں شریک ہوئے جبکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات کے چیرمین جاوید لطیف نے شرکت نہیں کی۔
رکن سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کمیٹی کے آغاز میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے اس مشترکہ اجلاس میں مکمل اپوزیشن شریک نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے خیال میں یہ اجلاس پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے تھے ، ن لیگ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہے ، پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا اجلاس میں شرکت کی جائے، اس کے بعد بائیکاٹ کیا جائے گا جب اجلاس پارلیمنٹ سے باہر ہو گی اس کے لیے چئیرمین سینیٹ اور قومی اسمبلی اسپیکر کی اجازت درکار ہو گی یہ ایک ڈریکونین بل ، بلیک قانون ہےاگر یہ مشترکہ اجلاس ہے تو اس میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات کے چئیرمین شریک نہیں ہیں اجلاس صرف سینیٹ کمیٹی چئیرمین کی زیر صدارت نہیں ہو سکتا ، قومی اسمبلی کمیٹی کے چئیرمین کی شرکت بھی لازم ہے اجلاس میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کا کوئی عملہ موجود نہیں ۔جس پر چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات ونشریات سینیٹر فیصل جاوید نے کہاکہ چیئرمین سینیٹ سے کمیٹی اجلاس کی حاصل کی منظوری لی گئی ہے یہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ہے کل دوپہر تک یہ اجلاس سینیٹ کمیٹی نہیں کر رہی تھی ، ہمیں بتایا گیا کہ ارکان قومی اسمبلی اجلاس میں آ رہے ہیں، پھر ہم نے جلدی میں اجلاس کی تیاری کی قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کے ارکان نہیں بھی آئیں تو ہم اجلاس منعقد کریں گے اجلاس میں قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کے چئیرمین شریک نہیں ہوئے
سینیٹ کی کمیٹی اس حوالے سے کمیٹی کا علیحدہ اجلاس بھی بلائے گی قومی اسمبلی کمیٹی کے شریک ارکان کہ رہے ہیں کہ اجلاس میں شرکت کی جائے قومی اسمبلی رولز کے مطابق اگر کوئی چئیرمین اجلاس میں شرکت نہیں کرتا تو کوئی اور رکن غیر موجودگی میں صدارت کرسکتاہے ۔وفاقی وزیرفواد چوہدی نے کہا کہ اس مشترکہ اجلاس کی درخواست رکن قومی اسمبلی و رکن کمیٹی مریم اورنگزیب نے کی تھی۔ ہم نے غیر رسمی اجلاس کے لیے سب کو بلایا تھا ہم نے پریس کلب ، صحافی تنظیموں سے بل پر مشاورت کی ہم چاہتے ہیں لوگوں کو بتائیں کہ یہ بل ہے کیالوگ پڑھے بغیر بل پر تبصرے کر رہے ہیں مصطفی نواز کھوکھر کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ ن لیگ پیپلز پارٹی کا جھگڑا ہے اسے کمیٹی اجلاس میں مت لائیں ن لیگ والوں نے پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم اجلاس میں نہیں بلایا تو آپ چاہتے ہیں کہ یہ اجلاس بھی نہ ہو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چئیرمین جاوید لطیف ہمارا وقت ضائع نہیں کرتے ، اگر جاوید لطیف کمیٹی چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو وہ استعفی دے دیں ۔ انتہائی اہمیت کا حامل ایجنڈا ہے انہیں اس مشترکہ کمیٹی اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اس اجلاس کی منظوری ان کے چیئرمین کو سپیکر سے حاصل کرنی چاہیے تھی وہ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں البتہ قانون کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین اپنے ممبران میں سے ایک ممبر کو بطور قائمقام چیئرمین منتخب کر سکتے ہیں۔اراکین قومی اسمبلی نے رکن کمیٹی میں سے ناصر خان موسیٰ زئی کو کمیٹی اجلاس کی صدارت کیلئے نامزد کیا۔سینیٹرمصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہاکہ آپ کاکورم نہیں ہے اجلاس کس طرح کرسکتے ہیں جس پر چیرمین کمیٹی سینیٹرفیصل جاوید نے کہاکہ اجلاس شروع ہوچکاہے کورم مکمل تھا جس کے بعدسینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اور سینیٹر انور لال دین کمیٹی اجلاس سے واک آؤٹ کر کے چلے گئے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کو پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی تفصیلات سے تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں میڈیا ورکرز کے ساتھ میڈیا مالکان عرصہ دراز سے صحیح سلوک نہیں کر رہے تھے کئی کئی مہینے میڈیا ورکرز کو تنخواہ نہیں دی جاتی اور میڈیا کو کنڑول کرنے کے حوالے سے 7 باڈیز کردار ادا کر رہی تھیں پھر بھی اس میں گیپ تھے ان تمام کو اکٹھا کر کے موثر قانون سازی کی جا رہی ہے متعلقہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی مشاورت کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس اتھارٹی کے قیام کیلئے چار ممالک کی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو سٹڈ ی کیا گیا ہے جن میں برطانیہ، آسٹریلیا، انڈیا اورسنگارپور شامل ہیں۔ پاکستان میں میڈیا کو7 باڈیز ریگولیٹ کرتی ہیں جن میں پیمرا، پریس کونسل پاکستان، پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی، سینسر بورڈ، پریس رجسٹرار آفس، اے بی سی اور آئی ٹی این ای شامل ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کو کہیں بھی ریگولیٹ نہیں کیا جا رہا تھا۔ اس لیگل فریم ورک کے تحت میڈیا ریگولیشن کے تمام قوانین کو ختم کیا جارہا ہے۔متعلقہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ نئی قانون سازی کی جارہی ہے تاکہ معاملات کو جتنا ممکن ہو سکے شفاف بنایا جائے۔ پی ایم ڈی اے (پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کا اطلاق پورے پاکستان کیلئے ہوگا۔پریس کےحوالے سے 7 پرانے قانون ختم ہوجائیں گے اور میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بن جائے گی۔ پاکستان پریس کونسل کا 5 کروڑ بجٹ ہے اور دوسال میں دو کیسوں کا ہی فیصلہ کیا ہے۔ ملک میں 42 صحافتی سکول ہیں پرانا نصاب پڑھارہے ہیں نئی کورس کوئی نہیں پڑھارہا ہے۔ جب سے پیمرا بنا ہے ڈویلپمنٹ پر ایک روپیہ خرچ نہیں کیا اور سوشل میڈیا میں بے شمار مسائل ہیں اور پرائیویسی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بچوں کی ویڈیو بنا کر شیئر کردی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا بہت ضروری ہے میڈیا مالکان اس قانون کے خلاف اور ورکرز حق میں ہیں۔ پہلے جرمانہ صرف 10 لاکھ تھا اس کو بڑھا کر 25 کروڑ روپے کر رہے ہیں۔۔
انہوں نے مشترکہ کمیٹی کو بتایا کہ سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز کی کل تعداد 114 ہے جس میں سے 31 خبروں اور کرنٹ افیئرز، 42 انٹرٹینمنٹ،23 علاقائی زبانوں، ایجوکیشن کے7 میں سے2 کام کر رہے تھے سپورٹس کے 3 میں سے1 کام کر رہا تھا۔42 غیر ملکی ٹی وی چینلز کو لینڈ رائٹس دیئے گئے تھے جن میں سے 5 خبروں اور کرنٹ افیئرز کے اور 14 کڈز کے ہیں۔ 31 نیوز چینلز میں سے چھ چینلز غیر قانونی چل رہے ہیں جن کے پاس نیوز کا نہیں انٹرٹینمنٹ کا لائسنس ہے۔ فواد چوہدری نے بتایا کہ ایف ایم ریڈیو کی تعداد 258 ہیں جس میں سے 196 کمرشل اور 62 نان کمرشل، کیبل ٹی وی آپریٹر4 ہزار 26ہیں، آئی پی ٹی وی 12 اور موبائل ٹی وی 6 ہیں۔پاکستان میں پرنٹ میڈیا جو اے بی سی سے منظور شدہ ہیں کی کل تعداد 1672 ہیں جس میں سے 1192 ڈیلیز، 203 ویکلی،28 پندرویں دن،389 نیوز ایجنسیز، پرنٹ پریس134 ہیں۔جبکہ 875 ڈمی اخبارات ہیں ۔اس وقت اٹھارہ کروڑ موبائل استعمال کرنے والے ہیں دو ورژن ہیں ، ایک ورژن ہے کہ میڈیا کو ریگولیٹ نہیں کرنا چاہیے ۔ میڈیا کو قومی مفاد ،قومی سیکورٹی کے لیے ریگولیٹ کرنا ہے جعلی خبروں ، گالم گلوچ ، defamation ، قابل نفرت تقاریر سے تحفظ دینے میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہے صارفین کے حقوق ، پرائیوسی ڈیٹا تحفظ کے لیے میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ہے قانون بناتے ہوئے پانچ ممالک کا ریگولیٹری فریم ورک پڑھا ہے اس وقت میڈیا کو سات قوانین ریگولیٹ کر رہے ہیں ہم ان ساتوں قوانین کو ختم کرکے انھیں اکھٹا کرکے ایک نیا قانون لا رہے ہیں اس میں سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہر میڈیا کے لیے الگ باڈی ہے پریس کے لیے پریس کونسل ہے ، الیکٹرانک میڈیا کے لیے پیمرا ہے اس وقت اپ کا موبائل ہی آپ کا ٹی وی ، اخبار اور سوشل میڈیا ہے الیکٹرانک میڈیا کے لیے کوئی قانون نہیں جس کے تحت میڈیا ورکرز کسی تک رسائی حاصل کریں۔ اتھارٹی میں چئیرمین سمیت 12 ارکان ہوں گے اتھارٹی میں چھ ممبران کا تعلق میڈیا ، فلم ، لاء ، سائیبر سیکورٹی ، انجینیرنگ ، سوشل سروس اور مینجمنٹ سے ہو گا۔اس اتھارٹی کے 5 ڈائریکٹوریٹ ہونگے جن میں فلم اور ڈیجیٹل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، میڈیا لٹریسی اور ایڈمنسٹریشن/ فنانس شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن بھی ہوگا جس کے کل 8 ممبران ہونگے،4ممبران حکومت سے اور 4 متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے لیے جائیں گے۔ میڈیا کمپلین کمیشن ہوگا جس کے 5 ممبران ہونگے۔ ایک میڈیا ٹریبونل بھی ہوگا جو10 ممبران پر مشتمل ہوگا۔ ٹی وی میڈیا ورکرز کو چھ چھ ماہ تنخواہ نہیں مل رہی ان کے پاس کوئی قانون نہیں جس سے وہ اپنے ادارے پر کیس کر سکتے ہیں مالکان اس قانون کے خلاف ہیں ، ورکرز اس قانون کے حق میں ہیں اس وقت میڈیا کے قانون over regulated ہیں پاکستان پریس کونسل کا بجٹ سالانہ پانچ کروڑ سالانہ ہے اور انھوں نے دس سال میں صرف دو کیسز کا فیصلہ کیا ہےاس وقت جرنلزم کے 42 سکولز ہیں جو پچاس سال پرانا کورس پڑھا رہے ہیں ، کوئی ڈیجیٹل میڈیا نہیں پڑھا رہا ہم ایک نئی اتھاڑتی چاہتے ہیں جو صحافیوں کی development پر کام کرے لوگ سوشل میڈیا پر کسی کی ویڈیو بنا کر ڈال دیتے ہیں ، کوئی چیک نہیں سوشل میڈیا پر privacy ، defamation کو ریگولیٹ کرنا بہت ضروری ہےمیرے خلاف اخبار میں خبر چھپتی ہے وہ پھر سوشل میڈیا پھر ٹی وی پر آجاتی ہیں ، میں کس فورم پر جاؤں ، سول کورٹ کا فورم ناکام ہے اس نئے قانون کے بعد پیمرا ختم ہو جائے گا ، شراکت داروں کے ساتھ مشاورت سے لائیں گےپی ایم ڈی اے کا دائرہ کار پورے پاکستان پر نافذ ہو گا پیپلز پارٹی اور ن لیگ مالکان کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں ورکرز کے ساتھ نہیں سول سوائٹی ، انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ اگلے ہفتے مشاورت کریں گے اتھارٹی مین کوئی کرمنل liability نہیں یہ سول mechanism ہو گا اتھارٹی میں فلم ڈیجیٹل میڈیا لا رہے ہیں فلم کئ شوٹنگ کے لیے سو این او سی رکھے ہوئے ہیں ، فلم ڈائیریکٹ بنا رہے ہیں جہاں سے این او سی لے سکیں گےالیکٹرانک میڈیا کا ڈائیریکٹ ہو گا جو پیمرا کا کام کرے گاپرنٹ میڈیا کا ڈائریکٹ ہو گا پرنٹ ڈائیریکٹ ابھی نیکٹا میں ہے ، سب پرنٹنگ پریس کو داخلہ کے ساتھ رجسٹر کرانا ہوتا ہےپرنٹ ، الیکٹرانک کی شکایات میڈیا کمپلینٹ کمیشن دیکھے گا ، میڈیا ٹریبیونل ہو گا نو رکنی کمیشن ہو گا جس میں چار میڈیا اور چار حکومتی ارکان ہوں گے ، میڈیا کمپلیٹ کمیشن اور میڈیا ٹریبینول قائم ہو گا میڈیا شکایت کمیشن افراد اور اداروں سے شکایات وصول کرکے تحقیقات کرے گا، شکایات خبر ، تجزیہ ، فلم ، ان لائن پلٹ فارم کے حوالے سے ہوں گی میڈیا ورکرز تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے حوالے سے بھی کمیشن میں شکایت کریں گےمیڈیا شکایت کمیشن کسی بھی لائسنس یافتہ اور این او سی رکھنے والے کو طلب کر سکتا ہے جس کے خلاف شکایت موصول ہو میڈیا کمپلیٹ کمیشن سات شہروں میں قائم ہو گا ، جس میں شکایات درج کی جا سکے گی ابھی پیمرا کا جرمانہ دس لاکھ روپے ہے اسے بڑھا کا 25 کروڑ زیادہ سے زیادہ جرمانہ کر دیا ہےمیڈیا کمپلیٹ کمیشن تین ہفتے میں فیصلہ دے گا میڈیا ٹربیونل ایک اپیل پر تین ہفتے کے اندر فیصلہ کرے گا میڈیا ٹربیونل کا چئیرمین ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کئ اہلیت رکھنے والا جج ہو گا ہائی کورٹ لیول کا میڈیا ٹرئی بیونل ہو گا ، اس لئے میڈیا ٹرئی بیونل کی شکایت سپریم کورٹ میں جانی چاہیے ہم دس روز میں اس بل کو قومی اسمبلی میں لیکر جا رہے ہیں پینتالیس دن میں یہ قانون پاکستان پر نافذ ہو جائے گا ہم اس بل کو کابینہ میں لے جانے سے پہلے کمیٹی میں لائے ہیںدو سے تین مالکان نے کہا ہے کہ آپ صرف اس میں سے میڈیا ٹرئی بیونل نکال دیں ان کا کہنا تھا کہ آپ میڈیا ورکرز والا معاملہ بل سے نکال دیں اور میڈیا مالکان نے کہا کہ آپ جرمانہ کم کر دیں اینکر ، مالکان ، رپورٹرز تو اوپر لیول پر رابطے کر لیتے ہیں لیکن میڈیا کا ملازم ڈی ایس این جی آپریٹر تو کہیں نہیں رابطہ کر سکتا حکومت ورکرز کے ساتھ حکومت نہیں تو کون کھڑا ہو گا میڈیا ٹرئی بیونل کو حصہ ہونا چاہیے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ وفاقی وزیر نے اتھارٹی کے حوالے سے تفصیلی بریف کیا ہے اور اس کو جب ایوان بالاء اجلاس سے قائمہ کمیٹی کو ریفر کرتا تو تمام اراکین کمیٹی کی مشاورت سے تفصیلی جائزہ لیا جاتا۔رکن اسمبلی محمد اکرم چیمہ نے کہاکہ میڈیا مالکان اس بل کے خلاف ہیں جبکہ ورکر اس کے ساتھ ہیں ۔اینکرز ساستدانوں پر مخالفین سے ایک کٖڑور روپے لیتے ہیں جب ان کے خلاف شکایت کی جائے تو صرف دس لاکھ روپے جرمانہ ہوتاہے تو دس لاکھ دے دیتا ہے ۔سب سیاست دانوں کے خلاف بات کرتے ہیں فوج عدلیہ کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا ہے ۔ 25کڑور روپے جرمانے کی تلوار لٹکے گئی تو الزام نہیں لگیں گے ۔رکن ناصر نے کہاکہ اپوزیشن کو بھی یہاں ہونا چاہیے تھا اس بل سے سب کی پروٹیکشن ہے ۔