افغان حکومت کا قیام اور تشکیل ، تحریر:صائمہ رحمان

0
66

افغانستان میں مضبوط اسلامی قومی حکومت کی تشکیل کا عمل شروع ہو چکا ہے افغان طالبان کی موجودہ حکمت عملی ماضی سے مختلف ہے طالبان کے نائب امیر اور قطر میں سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر المعروف ملا برادرکو سونپی جا رہی ہے۔ ملا عبدالغنی برادر کو ملا برادر” کے نام سے جانا جاتا ہے جو 1994 میں افغانستان میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین بھی رہے ملا عبدالغنی برادر 1968 میں افغانستان کے صوبے ارزوگان میں پیدا ہوئے ان کا تعلق افغانستان کے انتہائی بااثر پوپلزئی قبیلے سے ہے، وہ کئی سال افغان صوبے قندھار میں مقیم رہے اور طالبان دور میں ہرات کے گورنر رہنے کے علاوہ طالبان فوج کے سربراہ بھی رہے چکے ہیں ۔ 2001 میں ملا عبدالغنی برادر نائب وزیر دفاع بھی رہے

فروری 2010 میں پاکستان اور امریکا کی مشترکہ کارروائی میں ملا برادر کو پاکستان سے گرفتار کر لیا گیا تھا اور افغان حکومت سے امن مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے اُنہیں 2018 میں رہا کر دیا گیا۔ 2020 میں ملا عبدالغنی برادر نے امریکا کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد ہی افغانستان میں امریکا کی 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اگر طالبان کے تنظیمی ڈھانچے پر نظر ڈالی جائے تو سربراہ امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ سابق چیف جسٹس طالبان اور 2016 سے طالبان کے سربراہ بھی ہیں اور سیاسی ، مذہبی عسکری امور پر حتمی فیصلے کے مجاز ہیں نائب ملا محمد یقیوب بانی طالبان ملا عمر کے صاحبزادے ہیں اور ملٹری آپریشنل کمانڈر ہیں نائب امیر سراج حقانی سربراہ حقانی نیٹ ورک ہیں اس کے علاوہ سنئیر جج ملا عبدالحکیم نگران طالبان عدالتی نظام اور دوحہ مذاکراتی ٹیم کی قیادت کرتے ہیں لیڈر شپ کونسل یعنی رہبری شوری طالبان اعلی ترین مشاورتی فیصلہ ساز اتھارٹی 26 اراکین پر مشتمل ہے۔

طالبان کو اپنی حکومت کے قیام سے جلد ہی افغانستان میں موجود تجربہ کار غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت میسر آئی۔ اس حمایت نے طالبان کو عسکری محاذ اور ملک پر اپنا قبضہ جمانے میں بھرپور مدد فراہم کی۔طالبان کے افغانستان کے کنٹرول کے بعد تمام امریکی سفارتی اہلکاروں کو کابل سے نکال لیا گیا ہے دوسری طرف یہ ترجمان وائٹ ہاوس کا کہنا تھا کہ طالبان نے شہریوں کو بحفاطت ائیر پورٹ جانے کی اجازت دی امید کرتے ہیں طالبان اپنے وعدوں کو پورا کرے گئے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے افغانستان میں طالبان کی فتح قرار دیا اور تسلیم بھی کر لیا۔ دوسری طرف کینیڈا کے وزیراعظم نے طالبان کی حکومت نہ مانے کا اعلان کیا ہے ان کا موقف یہ تھا کہ منتخب افغان حکومت کو طاقت کے زور پر ہٹایا گیا برطانوی وزیرخارجہ نے افغان حکومت کے قیام کی امید ظاہر کی ہے

پاکستان سےزیادہ افغانستان میں امن کا خواہشمند کوئی ملک ‏نہیں، موجودہ صورتحال میں افغان رہنماؤں پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پاکستان نے طالبان کی جانب سے افغان سرزمین کسی اور ملک کے خلاف اور دہشتگردی کے لیے ‏استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔پاکستان افغان عوام کے ساتھ کھڑا ہے پاکستان افغانستان میں دیر پا امن کے لئے بھرپور اقدامات کرنے کے لئے تیار ہیں افغان وفد نے آرمی چیف سے ملاقات کے دوران پاک فوج کی قربانیوں اور کامیابیوں کو سہراہا اور ساتھ ہی پاک فوج کی افغانستان کی سماجی واقتصادی ترقی اور امن کے لئے کوششوں کو قابل قدر قرار دیا۔

email saima.arynews@gmail.com

Leave a reply