مزید دیکھیں

مقبول

شائستہ کیساتھ گہرا تعلق تھا، مگر اب ہم زیادہ ملتے نہیں،ساحر لودھی

کراچی: پاکستان کے مشہور اداکار و میزبان ساحر لودھی...

گوادر ایئرپورٹ کیخلاف عالمی میڈیا کا پروپیگنڈا بےنقاب

گوادر ایئرپورٹ کے خلاف عالمی میڈیا نے پروپیگنڈا...

ایک سال میں جو کچھ بھی ممکن تھا، وہ کیا ،وزیراعلیٰ سندھ

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ...

پاکستان نے آئی ایم ایف کو بجلی کے نرخوں میں کمی پر منا لیا

اسلام آباد: پاکستانی حکام نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی...

تھائی لینڈ کی سیر  حصہ اول تحریر: محمد آصف شفیق

الریاض سعودیہ میں تھائی لینڈ کی ایمبیسی  نے  سیاحوں کو سہولت دینے  کیلئے  ویزا پراسس میں  آسانی  کی تو میں  نے بھی سوچا کیوں نہ ہم بھی  تھائی لینڈ کا ویزہ لگوا لیں   اسی سلسلہ میں   معلومات کیلئے سب دوست احباب کو میسجز کر دئے  کہ جس  کے  پاس جو معلومات ہیں وہ شئر کریں   اور ڈاکومنٹس  کی تیاری  شروع کی 
ایک عدد ایپلیکیشن فارم پر کرنا تھا اور  بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے ایگزٹ ری انٹری چاہئے  ہوتی ہے     اپنی  کمپنی سے تعارفی لیٹر اور تنخواہ کے لیٹر کی درخواست کی اور اس پر چیمبر اور کامرس سے تصدیق کروانی تھی  یہ سب مراحل الحمد للہ ایک ہفتہ میں مکمل ہوئے  ،  یہاں کا رہائشی  پرمٹ   گھر کا مستقل  پتہ اور  بینک کی تین ماہ کی   سٹیٹمنٹ بنیادی چیزیں  تھیں 
تھائی لینڈ کے جس شہر میں سیر کیلئے جانا ہے وہاں پر کسی بھی ہوٹل کی بکنگ  اور  اتنے ہی دنوں کیلئے ہوائی جہاز کی ٹکٹ  کی بکنگ بھی چائیے  ہوتی ہے   ،  ویزہ پراسس کیلئے ان  سب  کیساتھ  ایمبیسی  کا وقت لینا پڑتا ہے  اور مطلوبہ وقت میں خود جاکر  اپلائی کرنا شرط ہے واپسی پر آپ  اپنی رسید کسی کے بھی ہاتھ  بھجوا کر  اپنا پاسپورٹ واپس لے  سکتے  ہیں
میں نے بھی یہ سب کاغزات مکمل کئے  اور مطلوبہ  دن تھائی ایمبیسی  پہنچ  گیا  ، وہاں پہنچ کر پتا چلا جو فارم میں  اون لائن  پھر کر آیا ہوں وہ  اب کار آمد نہیں  رہا اس کے بدلے میں اب ہمیں  ہاتھ  سے  نیا فارم بھرنا ہوگا اور اس پر فریش تصویر بھی لگانی ہوگی اور  2 تصاویر انہیں اضافی بھی چاہئیں ہوں  گی 
دوبارہ  سے وہیں بیٹھ کر سب معلومات کو جلدی جلدی  فارم  پر منتقل  کیا اور کچھ سوال و جواب کے بعد فیس کی ادائیگی  کے ساتھ ہی  ہماری  ویزہ کی درخواست قبول  کر لی گئی   ،    14 دن کا وقت دیا گیا کہ  آپکواطلاع دی جائے  گی اگر کوئی بھی مسعلہ ہوا تو،  بصورت  دیگر  رسید پر لکھی ہوئی  تاریخ  کو آپ آکر اپنا پاسپورٹ واپس لے  جانا
ان ہی دنوں پاکستان چھٹی جانے کا ارادہ تھا تو سوچا اگر تھائی لینڈ کا ویزہ لگ گیا تو پاکستان  سے  ہی چکر لگا لیں  گے اسی بہانے  تھائی لینڈ بھی دیکھ لیں  گے اور کچھ بذنس یا جوب کے سلسلہ کا بھی پتا کرلیں  گے کہ وہاں جوب کی جاسکتی  یا اپنا بزنس اسٹارٹ کیا جاسکتا 
خیر اللہ اللہ کر کے ہمارے دن مکمل ہوئے اور  دوبارہ اپنےپاسپورٹ  کی وصولی کیلئے  تھائی ایمبیسی  پہنچے  پاسپورٹ واپس لیا الحمد للہ ویزہ لگا ہوا تھا    تین ماہ کی سنگل انٹری سیاحتی ویزہ  جوکہ 17 اپریل  2018  سے   16 جولائی 2018 کے درمیان کبھی بھی استعمال کیا جاسکتا تھا
9 جولائی کو کراچی سے تھائی لینڈ کے سفر کا فیصلہ کیا سب سے مناسب اور ڈائریکٹ فائٹ تھائی ائر لائین  کی تھی  ایک ہفتہ کیلئے ہوٹل بکنگ کروائی اور تھائی ائر کی ٹکٹ خریدی  اور  گھر سے اوبر منگوا کر سفر کا آغاز کیا  اوبر والا بھی کوئی شریف آدمی تھا اس  نے بھی بھانپ لیا کہ بندہ کراچی کا نہیں  لگتا اور مجھے بھی کوئی اندازہ  نہیں تھا بنے 330 اور اس ظالم  نے مجھ سے 1330 لے  لئے خیر  وہ تب پتا چلا جب اوبر کی طرف سے ای  میل موصول ہوئی اس وقت تک تو  میں جہاز میں سوار ہو چکا تھا   ، اللہ بھلا کرے اس انسان کا  ہزار روپے میں اس نے لاکھوں کا سبق  دے دیا
 بہر حال  جہاز میں نظر دوڑائی تو زیادہ تعداد اپنے پاکستانیوں کی تھی  اور کچھ لوگ   دوسرے ممالک کیلئے  ہونگ کانگ اور دوسرے ملک جانے کیلئے وہا ں تھوڑا قیام کر کے آگے جانے والے تھے اور کچھ  ہم  جیسے سیر و سیاحت کی غرض  سے   جانے  والے   ، فلائٹ اڑنے کے کچھ ہی  دیر بعد  اناونسمنٹ  ہوئی کے  باہر موسم شدید خراب ہے  اسلئے  اپنی اپنی  نشستوں پر بیٹھے  رہیں  اور  سیٹ بیلٹ باندھ کر رکھیں   ، تین بار ائر ہوسسٹس بیچاریاں  کھانا پیش کرنے کیلئے  اپنی ٹرالیاں لائیں  مگر ہر بار انہیں ناکامی ہوئی اور تقریباً 4 گھنٹے کا سفر  ایسے ہی گزرا کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے شدید  جھٹکے  لگتے رہے اور اسی  طرح  ہلتے جہاز میں ہی کچھ نہ کچھ  کھا لیا  
فلائٹ الحمد للہ اون ٹائم لینڈ ہوئی  جب باہر کا نظارہ دیکھا تو بارش کیساتھ ساتھ دھند دیکھ کر خیال آیا کہ شائد پھنس  گئے جیکٹ تو لائے ہی نہیں اور باہر لگ رہا شاید شدید سردی ہو ، جن لوگوں نے آگے جانا تھا سب نے اپنی اپنی جیکٹیں پکڑی ہوئی تھیں  جنہیں  میں نے حسرت بھری نگاہوں سے  دیکھا ، مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق ڈھیٹ ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ، خیر پاکستان کی طرح انہوں نے بھی دور اتار دیا اور بس کے ذریعے  ائرپورٹ تک لائے ہمارے ساتھ ساتھ  کئی اور فلائٹس بھی آنے کی وجہ سے خوب رش ہوگیا چارو ناچار  ہم بھی لائن  میں لگ  گئے  ایک پیپر پھر دے دیا گیا اسے دو بار بھریں  ایک حصہ انہوں  نے  رکھ لیا ایک حصہ مجھے دے دیا اور ساتھ میں انگریزی میں کہا کہ یہ ضروری واپسی پر چاہئے ،  میں نے اسے تعویز کی طرح اپنے پرس میں سنبھال کر  رکھ لیا، امیگریشن کے فورا بعد وہاں  سے انٹر نیٹ اور فون کیلئے سم لی  ، گزشتہ سفروں نے تھوڑا بہت سکھا دیا ہے کہ جہاں بھی جاو اترتے ہی پہلا کام اپنے پاسپورٹ پر سم کارڈ لو تاکہ رابطے میں رہ سکو
باہر نکل کر ٹیکسی والے سے سینٹر سٹی جانے کا پوچھا اس نے جو پیسے مانگے تو چکر سا آگیا جو دوست پہلے جا چکے تھے انہیں  میسج کیا کہ بھائی یہ حالات ہیں  انہیوں نے مشورہ دیا کہ ائر پورٹ کے نیچے میٹرو اسٹیشن  ہے وہاں سے ٹکٹ لو اور شہر پہنچ جاو ، بہترین  اور کم خرچ میٹرو ،جیسے جیسے اسٹیشن  آتے گئے رش میں اضافہ ہوتا رہا ایسا لگا جیسے  سب لوگ ہی میٹرو استعمال کرتے ہیں ، نوجوان بوڑھے سٹوڈنٹس سب لوگوں کو میٹرو ٹرین  استعمال کرتے دیکھا  انتہائی صاف ستھرا  ماحول  اور بہترین انتظام    ، خیر سینٹر سٹی پہنچ کر چیک کیا تو پتا چلا جو ہوٹل ہم نے بک کروایا ہے وہ آٹھ گھنٹے کی مسافت پر ہے  اور میٹرو سے نہیں جاسکتے آپکو  بس یا ٹیکسی پر جانا پڑے گا یہ سننتے ہیں  تھکن سے چور جسم نڈھال ہوگیا اور میں وہیں اسٹیشن پر ہی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ، تھوڑے اوسان بحال ہوئے  تو بکنگ ڈاٹ کام پر ہوٹل سرچ کیا اس وقت دوپہر کا وقت تھا قریب ہی ہوٹل مل  گیا  مگر چیک ان ٹائم چار بجے کا تھا  کریڈٹ کارڈسے  ادائیگی کی اور ہوٹل کی لوکیشن لگا کر پیدل ہی چل دیا   ، لگ تو قریب ہی رہا تھا مگر جب لوکیشن اون کی تو پتا چلا وہ  ڈرائیو آپشن پر تھا اور ہم پیدل   اللہ کا نام لیکر چل دئے گرمی اور ہوا بھی نمی کا تناسب بھی کچھ ایسا تھا کہ کچھ ہی دیر میں  سارے کپڑے پسینے  سے شرابور  ہوگئے  ،ہم نے بھی حوصلہ نہیں  ہارہ  اور ہوٹل کی طرف پیدل ہی والک جاری رکھی   کہ غلطی اپنی ہی تھی ہوٹل بکنگ کرتے ہوئے صرف سستا دیکھا سینٹر سٹی سے اسکا فاصلہ دیکھنا یاد نہ رہا تھا  ,

@mmasief

محمد آصف شفیق
محمد آصف شفیق
Freelance digital media writer |Blogger | columnist for http://baaghitv.com and social media activist @mmasief