تنگ جینز، چھوٹی قمیض، بکھرے بال، ایک ہاتھ میں سگریٹ دوسرے میں سمارٹ فون ، منہ میں گٹکا یا پان، اور ہونٹوں پر گندی گالی، یہ ہے آج کا عام پاکستانی نوجوان۔ جس کے پاس تعلیم بھی ہے اور شاید کسی حد تک ہنر بھی مگر کردار و اخلاق کا بری طرح سے فقدان ہے۔
وہ نوجوان جو بیش قیمت اثاثہ ہوتے، جن پر ملک کے مستقبل کی اساس ہوتی، وہ بری طرح سے بگڑتے جارہے ہیں۔ فیشن پرستی کا وبال ہماری اقدار کو گھن کی طرح کھا رہا لیکن والدین، اساتذہ اور ارباب اختیار خاموشی سے تماشائی بنے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنرمند مگر عمدہ اخلاق و کردار کے حامل نوجوان ہی کسی بھی ملک کا سرمایہ افتخار سمجھے جاتے ہیں۔ نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پرملک کی ترقی و تنزلی منحصر ہوتی مگر بدقسمتی سے پاکستانی نوجوان نسل بری طرح سے بے راہ روی کا شکار ہورہی۔ مشرقی اقدار جن پرکبھی ہم نازاں تھے یورپ کی اندھی تقلید میں کھو چکی ہیں۔ اور رہی بات اسلام کی تو وہ بس سوشل میڈیا کی پوسٹس یا اسلامیات کے پیپر تک محدود ہو کر رہ گیا ہے عملی زندگی میں کہیں نام و نشان نہیں رہا۔ المیہ یہ ہے کہ نہ خوف خدا رہا ہے نہ شریعت کا کوئی لحاظ۔ بس ایک بھیڑ چال کی کیفیت ہے جس میں ہر کوئی بگٹٹ بھاگے چلا جا رہا۔
وہ حیا جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نور
لے اُڑی اس نکہتِ گل کا یہ تہذیب فرنگ
آجکل کے زیادہ تر نوجوان لڑکے یا تو سارا دن پب جی کھیل رہے یا ٹک ٹاک پر ویڈیو بنا رہے۔ چرس، ہیروئن اور پورن فلموں کے نشے میں ڈوبے اور اگر امتحان پاس کرنا ہو تو آئس کا نشہ کر کے وقتی طور پر دماغ روشن کر لیتے چاہے بعد میں پوری زندگی تاریکی میں ڈوب جائے۔
اور رہی لڑکیاں تو ان کا حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ ہر بدلتا فیشن اپنانا ان کا فرض عظیم ہے چاہے وہ اسلامی و اخلاقی اقدار کے منافی ہی کیوں نہ ہو۔ فیشن کی دوڑ اور نمایاں و برتر نظر آنے کے چکر میں نت نئے برانڈز کی چاندی ہے۔ بات زیب و زینت سے بڑھ کر نمود و نمائش سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ رہی سہی کسر ماڈلز و اداکاراؤں کے طرز زندگی کی نقالی نے پوری کر دی ہے۔
“اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیاہے جو تمہارے جسم کے ان حصوں کو چھپا سکے جن کا کھولنا برا ہے، اور خوشنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔ اور تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے۔ یہ سب اللہ کی نشانیوں کا حصہ ہے، جن کا مقصد یہ ہے کہ لوگ سبق حاصل کرسکیں۔ “
قرآن مجید کے اس واضح حکم کے باوجود ہم بغیر کسی پچھتاوے کے نفس کے اسیر بنے ہیں۔ فیشن پرستی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ فیشن اور فحاشی کا فرق مٹ گیا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو والدین اور بزرگوں کی صحبت اب آؤٹ ڈیٹڈ لگتی ہے۔ مخلوط محافل، فاسٹ فوڈ اور بیہودہ لباس کو جدت پسندی اور فیشن کے نام پر اپنایا جارہا۔فیشن پرستی اور مغرب کی اندھی تقلید ہمارے معاشرے کی جڑوں کو روزبروز کھوکھلا کر رہی اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ عریانی کو فروغ دیتے فیشن کی نہ تو مذہب اجازت دیتا نہ ہماری مشرقی اقدار۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
فیشن کچھ حدود و قیود میں کرنا قطعاً معیوب نہیں ہے۔ مگر فیشن پرستی کی آڑ میں اسلامی تعلیمات و تہذیب کو پس پشت ڈال کر اندھا دھند تقلید ہمارے نوجوانوں میں بری طرح بگاڑ کا سبب بن رہی اور ہمارے معاشرے کا اب یہ حال ہوچکا ہے کہ
“کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا”
@once_says








