احیائے اُردو، تحریر:سید غازی علی زیدی

0
70

بعد نفرت پھر محبت کو زباں درکار ہے
پھر عزیز جاں وہی اردو زباں ہونے لگی

ٹویٹر نے اردو زبان پر وہ احسان کیا ہے جو ہماری تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ اردو زبان جس کا نام ونشان پاکستان سےمٹتا جا رہا تھا اچانک سے ایسی چمک دمک کیساتھ شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی کہ مثال نہیں ملتی۔ ٹویٹر نے تو خاک سے اٹھا کر سونا کیا ہیرا کردیا۔ سکول و کالج کا سب سے زیادہ مظلوم ترین مضمون اس وقت سب سے زیادہ مانگ میں ہے۔ وہ لوگ جن کی رہی سہی کسر رومن اردو اور میسج ٹائپنگ نے بگاڑ دی تھی۔ وہ راتوں رات اردو دان بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو ایک جملہ درست نہیں لکھ سکتے تھے وہ پورے پورے مضمون لکھ رہے۔ جنہوں نے کبھی فیس بک کے علاوہ کوئی کتاب نہیں کھولی تھی وہ ذوق و شوق سے اردو ادب پڑھ رہے اور تبصرے بھی کر رہے۔
کہتے ہیں جو کچھ بھی ہوتا قدرت کی طرف سے اچھے کیلئے ہوتا۔ قلمکار کی ناچیز رائے میں یہ اللّٰہ تعالیٰ کیطرف سے اشارہ ہے کہ مستقبل اردو زبان کا ہے۔ بیشک ابھی الفاظ و افکار مستعار لئے گئے ہیں، کاپی پیسٹ کی بھی بھرمار ہے لیکن یہیں سےاردو زبان وبیان کا از سر نو احیاء ہوگا۔ کتب بینی دوبارہ عام ہوگی۔ پر تاثیر و پردرد الفاظ کا جب ذخیرہ عام ہوگاتو یہی الفاظ ذہنی سوچ و فکر کو بھی بدلیں گے ان شاءاللہ۔
ہر نیا رجحان نئی ترجیحات طے کرتا۔ گو کہ تخلیق کا عمل سہل نہیں قلمکار کوئ بھی شاہکار تخلیق کرنے کے دوران ایک مخصوص ذہنی عمل سے گزرتا ہے کسی کرب کو سہتاہے کوئ محرک اسے لکھنے پرمجبور کرتا ہے تب ہی بہترین تخلیق جنم لیتی ہے
یہاں تک بہترین مزاح بھی نمناک ہوسکتاہے۔ فی الحال یہ بات تازہ بہ تازہ لکھاریوں کو سمجھ نہیں آئے گی لیکن کل کو انہی میں سے کوئی اشفاق احمد کوئی بانو قدسیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاندار ادب تخلیق کرے گا۔ کاپی پیسٹ کرنے والے کل کو اپنے مخصوص انداز تحریر کےمالک ہونگے۔ ان کی تحریریں میں قلمکار کی ذات بھی جھلکے گی اور دلی جذبات بھی عیاں ہوں گے۔
مانا کہ لکھنا ایک مشکل امر ہے لیکن شوق و جذبہ ہو تو ناقابلِ تسخیر چوٹیاں تک سر ہوجاتی یہ تو پھر قلم کے قدم بہ قدم دوستانہ سفر ہے۔ بس یہ عہد کرلیں کہ بلیو ٹک کی شرط ہو نہ ہو ہمیں لکھتے رہنا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ کل کو ہم بہترین قلمکار نہ بن سکیں۔
صفحہ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرتِ افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم

@once_says

Leave a reply