”تبدیلی“ کی اب ہونی ہے تبدیلی، تحریر: نوید شیخ

0
37

”تبدیلی“ کی اب ہونی ہے تبدیلی، تحریر: نوید شیخ
فرد ہو یا قوم، سب سے بڑی مجبوری، سب سے بڑی غلامی، معاشی غلامی ہوتی ہے۔ پاکستان کو غلامی کا ایسا پھندہ لگ گیا ہے کہ حالت یہ ہو چکی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔۔ کہا جا رہا ہے کہ ڈالر اس ماہ کے آخر تک200تک پہنچ جائے گا اور اگلے بجٹ تک 220روپے تک کا ہوجائے گا ۔ پھر آئی ایم ایف کی شرائط پر جو منی بجٹ نافذ کیا جا رہا ہے ۔ اس سے 360 ارب روپے کے ٹیکس اور تمام سبسڈیز کا خاتمہ وجائے گا ۔ ۔ مگر وزیراعظم روز کسی نہ کسی بہانے ٹی وی پر آکر ایک ہی راگ الپاتے ہیں کہ ۔ پاکستان سستا ترین ملک ہے ۔۔ پاکستان جلد ہی خطے کا بڑا اور لیڈر ملک بن کر ابھرے گا۔ صرف سردیاں مشکل ہیں، گرمیاں آتے ہی مہنگائی اور مشکلات کم ہو جائیں گی۔ وزیراعظم کی باتوں سے لگتا ہے انہیں آج بھی اس امر کا یقین ہے لوگ ان کی باتیں امید بھرے انداز میں سنتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ۔ کپتان کی ایسی ہر بات کے فوری بعد عوام پر مہنگائی کا کوئی نیا بم گرا دیا جاتا ہے اور ان کی رہی سہی کمر بھی ٹوٹ جاتی ہے۔

۔ میانوالی میں جلسے میں بھی یہ ہی گھسی پیٹی باتیں کی گئیں ۔ ۔ پر اب جو عوام ہے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے میانوالی میں بھی کپتان کی تقریر کے دوران پنڈال میں موجود ایک شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ یہ سب ” جھوٹی باتیں ہیں“۔۔ اس نوجوان کاکہنا تھاکہ چاچا عمران آپ نے مہنگائی بہت کردی، ہم بھوکے مرگئے ہیں، مہنگائی کم کرو، مہنگائی کم کرے۔ ۔ اچھا یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا ۔ مستقبل قریب کے چند واقعات آپکو سنا دیتا ہوں ۔۔ پشاور میں جلسے کے دوران بھی ایک شخص ایسے ہی اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ ۔ اسلام آباد میں بھی پی ٹی آئی کے ایونٹ کے دوران ایک نواجوان مائیک پکڑ کر تحریک انصاف کوآئینہ دیکھا چکا ہے ۔ ۔ پھر حالیہ کے پی کے میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے دوران بھی علی امین گنڈاپور کے سامنے لوگ ڈٹ گئے تھے ۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کی بحالی کے باربار وعدوں کے باوجود حالات تشویشناک حد کو پہنچ چکے ہیں مگر حکومت کے معاشی ارسطو جلد بہتری کی اب بھی نوید سنا رہے ہیں۔ ۔ اسی جانب آج پی ٹی آئی کے اہم اتحادی ق لیگ کے پرویز الہی نے دوبارہ اشارہ کیا ہے کہ حکومت جان لے مہنگائی کو کنٹرول نہ کیا تو ہر قسم کی پرفارمنس ختم ہو جائے گی۔

۔ دراصل عمران خان سب جانتے ہوئے ایسے بیانات جاری کرتے ہیں تا کہ عوامی توجہ ان کی کارکردگی پر مرکوز نہ ہونے پائے اور لوگ ان کے بیانات کی بھول بھلیوں میں کھوئے رہیں ۔ ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر اقتدار میں موجود لوگ خود بھی گلے گلے تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ہر اس شخص کی سرپرستی کرتے ہیں جو کرپشن کیلئے تیار ہو۔ بڑے بڑے سکینڈلوں میں ملوث منفی شہرت کے حامل کو بلا بلا کر جس طرح بڑے بڑے عہدوں سے نوازا گیا ہے موجودہ نظام کی کریڈبیلٹی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ۔ قرضے لے کر ایسے اڑائے جاتے رہے جیسے مال غنیمت اڑایا جاتا ہے۔ کوئی بتائے کوئی سمجھائے 35 ہزار ارب روپے کا قرضہ آخر کہاں گیا۔ اس کا کبھی کوئی جواب نہیں ملا، بس یہ ضرور کہا جاتا رہا کہ جانے والے حکمران لوٹ کر کھا گئے۔۔ پھر موجودہ حکومت کو اپوزیشن سے بھی ایک اور بڑا خطرہ فارن فنڈنگ کیس ہے اِس حوالے سے DG Law کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرادی ہے جس میں پی ٹی آئی کو فارن فنڈنگ کیس میں بری الزمہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ ملوث ہونے کے واضح شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ ۔ جمعرات کو ان کیمرہ اجلاس بھی ہو چکا ہے ۔ یہ رپورٹ ایسی تلوار ہے جو پی ٹی آئی حکومت کے لیے تباہ کُن ثابت ہو سکتی ہے ۔۔ کیونکہ اس میں پی ٹی آئی کو بھارت اور اسرائیل سے فنڈنگ بارے بھی الزامات کا سامنا ہے ۔ ۔ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عمران خان اِس رپورٹ کی روشنی میں نہ صرف نااہل ہو سکتے ہیں بلکہ حکمران جماعت کے بھی کالعدم ہو نے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ کیس کا سامنا کرنے کے بجائے تحریکِ انصاف راہ ِ فرار اختیار کرنے جیسی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔۔ پھر وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کو پچاس ہزار جرمانہ ہوا ہے مگرحکمران کچھ دیکھنے یا سننے کے بجائے انتخابات میں دھاندلیوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ تو الیکشن کمیشن نے سپیکر اسد قیصر کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کردیا ہے۔۔ دراصل اسپیکر اسد قیصر کی ایک آڈیو زیر گردش ہے، جس میں وہ ووٹرز کو ترقیاتی منصوبے دینے کا وعدہ کررہے ہیں۔ ۔ اب ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے میں اسد قیصر کو 13
دسمبر کو ساڑھے 11 بجے طلب کیا گیا ہے ۔

۔ مجھے تو لگ رہا ہے کہ اپوزیشن نہ اتنی جوگی ہے اور اوپر سے آپسی اختلافات کا شکار بھی ہے ۔ ہر کسی کی اپنی رائے ہے ۔ تو کہیں ۔۔۔ چن ۔۔۔ الیکشن کمیشن نہ ۔۔۔ چاڑھ ۔۔۔ دے ۔ اور بازی مار لے ۔ ۔ کیونکہ آپ دیکھیں میاں صاحب کے حوالے سے خبریں گردش میں ہیں ۔ کہ نواز شریف تو پہلے ہی ٹکا سا جواب دے چکے ہیں کہ شوق پورے کریں ۔ عمران خان چاہے پانچ سال مکمل کروائیں یا اگلے پانچ سال مزید دے دیں ۔ لاڈلے سے جتنا بیڑہ غرق کروانا ہے کروالیں ۔ انکا موقف وہ ہی ہے ۔ کہ صرف صاف شفاف اور پولیٹکل انجئرینگ کے بغیر الیکشن ہون گے تو ہم سوچیں گے ۔ کیونکہ نواز شریف عمران خان کو کچھ نہیں سمجھتے ان کی نظر میں کپتان ایک پیادہ ہے اصل پھڈا تو کپتان کو لانے والوں سے ہے ۔ ۔ اب ایاز صادق کے بارے جیسے میں نے بتایا تھا کہ وہ ایک تجویز لے کر لندن پہنچے ہوئے ہیں ۔ آج یا کل میں ان کا quartine ختم ہونے والا ہے اور پھر نواز شریف سے ملاقات ہوگی ۔ تو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر قائم رہتے ہیں یا پھر کوئی ڈیل مار لیتے ہیں ۔ فی الحال عوام کے لیے اس حکومت کا ایک ایک دن کرب کا گزر رہا ہے ۔ ۔ کیونکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ خدانخواستہ عمران خان اگر اگلے پانچ برس بھی اقتدار میں آگئے تو دن عوام کے نہیں پھریں گے انہیں مسلسل آئی ایم ایف کی سختیاں جھیلنا پڑیں گی کیونکہ انہوں نے اس کی شرائط کے آگے سر اوپر نہیں اٹھانا ۔ لہٰذا عوام چاہتی ہے کہ نیا سیاسی منظر بنے ۔ نئے چہرے جو قرضوں، مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے نجات دلائیں وہ آگے آئیں ۔ ۔ پھر یاد رکھیں ایسی معیشت کے ساتھ اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ہماری خارجہ پالیسی بھی آزاد ہو۔ عالمی سطح پرعزت بھی ہو۔ ہمیں کوئی دبانے کی کوشش بھی نہ کرے تو یہ دیوانے کے خواب ہی کہلائیں گے۔ ۔ اس لیے باقی سب کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی سوچنا ہو گا کہ ملک کو اس حال تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے۔ اگر مان لیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے کچھ غلطیاں بھی کی ہیں تو اب ان کا کفارہ ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔کیونکہ وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی تمامتر باتوں کے باوجود ایک روائیتی حکمران ثابت ہوئے۔

۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اعداد وشمار جھوٹ نہیں بولتے ۔ آپ دیکھیں کرپشن سے پاک عمران حکومت کے دور میں کرپٹ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 180 ملکوں میں 120 سے
124ویں نمبر پر گرگیا ہے یعنی کرپشن میں مزید چار درجے اضافہ ہوا ہے۔ کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑنے اور چوروں اور کرپٹ سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرنے کے ایجنڈے پہ قائم ہونے والی حکومت کے بارے میں 85.9فیصد عوام نے عمران حکومت کے احتساب پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ بلکہ ان کی حکومت میں کرپشن اور بڑھ گئی ہے۔۔ آپ پولیس کو دیکھ لیں، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو دیکھیں، پاکستان ریلویز سمیت کسی بھی جگہ چلے جائیں کرپشن عام ہے۔ حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی عام آدمی کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔ پر وزیراعظم اور وزراء پچھلے ساڑھے تین برسوں سے دلاسے پہ دلاسہ دیئے جا رہے ہیں، جیسے جلد ہی خوشحالی کے جھکڑ چلنے لگیں گے حالانکہ ابھی تو بربادی کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ کاش چند روز پہلے جیسے حکومت گرین لائن منصوبے کا کریڈٹ لے رہی تھی اس ملک کی تباہی کا بھی کریڈیٹ لے تو اس کے گناہوں کو کفارہ ہو جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حکومت نے جھوٹ کے سوا کچھ نہیں بولا ۔ یہ چیلنج تو اپوزیشن نے بھی کر دیا ہے کہ لنگر خانوں کے سوا عمران خان ایک منصوبہ دکھادیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین تبدیلی حکومت محض ٹائم پاس کر رہی ہے۔ جو جتنی مرضی تنقید کرے مگر تحریک عدم اعتماد اور قبل از وقت انتخابات آئینی اور جمہوری راستہ ہے اور ملک درپیش تمام مسائل کا واحد حل نئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہیں۔ جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کو level playing field ملے اور جسے عوام منتخب کریں اسے حکومت بنانے دی جائے۔ کیونکہ یاد رکھیں ”تبدیلی“ کی تبدیلی اگر اب نہ ہوئی تو کہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔

Leave a reply