کراچی سائٹ ایریا شیر شاہ کی یہ کہانی ہے۔ دوپہر کوئی 2 بج رہے تھے تقریباً کمپنیوں میں کھانے کا وقت تھا کوئی کھانا کھا رہے تھے اور کوئی ہوٹل پر بیٹھے چائے پی رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے اتنے میں ایک زور دار آواز آتی ہے اور گیس لائن کا دھماکہ ہوتا ہے میں اور میرے دوست بھی ہوٹل پہ بیٹھے چائے پی رہے تھے تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہلچل مچ گئی ہے ہم اپنی کمپنی کی طرف جا رہے تھے تو ایمبولینس دکھی ہمیں لگا کہ کوئی ایکسیڈنٹ ہوگیا پر پھر معلوم ہوتا ہے نالہ پر ایک بینک بنی ہوئی تھی وہاں گیس لائنیں پھٹنے کی وجہ سے دھماکہ ہوا ہے بلڈنگ زمین تلے بوس گئی اس میں لوگ بھی پھنس گئے کتنی عورتیں بچے بھی شامل تھے، کئی لوگ اس زندگی سے رخصت ہو گئے کئی ہسپتالوں میں منتقل ہو گئے لوگوں نے سنا بینک میں دھماکہ ہوا بلڈنگ گر گئی لوگ اس طرف بھاگنے لگے اس لیے نہیں کہ وہاں جا کر کسی کی مدد کی جائے ریسکیو ٹیموں کی مدد کی جائے بلکہ وہ وہاں سب پیسے بٹورنے میں لگے رہے انسان کی جان کی کوئی پرواہ نہیں پیسہ کو اہمیت دی جارہی تھی ہم نے وہاں دیکھا کچھ لوگوں کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے کسی کا سر بدن سے الگ تھا کسی کا ہاتھ تو کسی کا پائوں، اب سوال یہ ہے کہ گیس دھماکے کیسے ہوتے ہیں

عموماً اور دوسرا یہ کہ نالہ کہ اوپر بینک کیسے بنی؟ سردیوں میں گیس کے مسائل نہاں ہوتے ہیں تو پھر عوام بھی اپنی مدد آپ کرتی ہے جیسا کہ ابھی کچھ مشینیں آئی ہیں جس سے اگر آپ کا گیس پریشر کم ہوگا تو وہ گیس کھینچتی ہے جو بہت زیادہ خطرناک ہے اور یہ کام غیر قانونی بھی ہے پر عوام مجبور ہے، کچھ لوگ سلینڈر استعمال کرتے ہیں تھوری سی لا پروائی گھر برباد ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں غیرمعیاری اور خراب گیس سلنڈروں کی وجہ سے آئے دن ہلاکت آفریں دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔یہ غیرمعیاری سلنڈرگھروں میں کھانا پکانے کے علاوہ گاڑیوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ساحلی شہرکراچی کا پاکستان کی اقتصادی پیداوار میں حصہ 60 فی صد ہے۔یہ شہر طویل عرصے سے بنیادی ڈھانچے، غیر قانونی تعمیرات، ادارہ جاتی اور حکام کی کرپشن اور ناکام میونسپل خدمات کی وجہ سے گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ ترجمان سوئی سدرن گیس کمپنی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ شیر شاہ دھماکے کی جائے وقوعہ پر موجود سوئی سدرن گیس کی ٹیموں نے تصدیق کی ہے کہ واقعہ کی جگہ پر ادارے کی کوئی گیس پائپ لائن نہیں، علاقے میں موجود تمام گیس پائپ لائنز بالکل محفوظ ہیں اور انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بم ڈسپوزل یونٹ نے بھی اپنے کلیئرنس سرٹیفکیٹ میں وجہ سیوریج لائن میں دھماکا بتایا ہے جو کہ دھماکے میں بری طرح سے تباہ ہونے والی عمارت کے بالکل نیچے سے گزر رہا تھا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ امر بھی قابل غور اور توجہ طلب ہے کہ وقوعہ پر قدرتی گیس کی کوئی بو نہیں تھی اور یہاں تک کہ آگ بھی نہیں لگی، جو اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ دھماکے کو سوئی سدرن گیس کمپنی کی پائپ لائن سے جوڑا نہیں جا سکتا۔سوئی گیس کا مزید کہنا ہے کہ بم ڈسپوزل یونٹ نے بھی اپنے کلیئرنس سرٹیفکیٹ میں وجہ سیوریج لائن میں دھماکا بتایا ہے جو کہ دھماکے میں بری طرح سے تباہ ہونے والی عمارت کے بالکل نیچے سے گزر رہا تھا۔ ترجمان نے کہا کہ یہ امر بھی قابل غور اور توجہ طلب ہے کہ وقوعہ پر قدرتی گیس کی کوئی بو نہیں تھی اور یہاں تک کہ آگ بھی نہیں لگی، جو اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ دھماکے کو سوئی سدرن گیس کمپنی کی پائپ لائن سے جوڑا نہیں جا سکتا۔

Shares: