ایک وقت تھا جب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان خود کو امت مسلمہ کے ایک لیڈر کے طور پر منوانے کے لئے خوب جوش و جذبے کے ساتھ سرگرم تھے۔ اس کے لئے انہوں نے کئی بڑے بڑے فیصلے بھی کئے مسلمانوں کو امت مسلمہ کے نعرے بھی سنائے۔ جس سے ان کو خوب شہرت ملی۔ لیکن اب جو قدم ترکی کی جانب سے اٹھایا گیا ہے اس نے ان کے تمام پچھلے فیصلوں پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس وقت اگر کوئی چیز اہم ہے تو وہ صرف اور صرف مالی مفادات ہیں۔مطلب وہ کشمیرجس کی حمایت میں ترکی کل تک مختلف فورمز پر آواز اٹھا رہا تھا آج وہ اسی کے خلاف انڈیا کو ڈرونز کی فراہمی کر رہا ہے۔ اور پاکستان کے ساتھ ترکی کی یہ کیسی دوستی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اس کے دشمن کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے۔
دراصل ہو یہ رہا ہے کہ ترکی کی ایک کمپنی Zyrone Dynamicsکا انڈیا کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے جس کے تحت وہ انڈیا کوMultirotor mini UAV model dronesفراہم کرے گا۔ اس ڈیل کوbeginning of new relation between Turkey and Indiaکا نام دیا جا رہا ہے۔ اور ان ڈرونز کی فراہمی اگلے چند دنوں تک شروع کر دی جائے گی اور آنے والے سال میں کل سو ڈرونز انڈیا کو ڈیلیور کر دئیے جائیں گے۔جن کی Demo flightsمارچ2022میں ہوں گی۔ اور یہ معاملہ صرف ڈرونز کی فراہمی تک کا نہیں ہے۔ بلکہ اس ڈرون بنانے والی کمپنی کے ایک ملین ڈالر کے تیس فیصد شیئرز بھی انڈیا نے حاصل کر لئے ہیں۔ جس کے بعد ترکی نہ صرف یہ ڈرون بنانے کی ٹیکنالوجی انڈیا کو دے گا بلکہ یہ دونوں ممالک مل کر ان ڈرونز کے کاروبار کو پوری دنیا میں پھیلائیں گے اور ان کی مارکیٹینگ اور سیل کریں گے۔اور یہ وہی ڈرونز ہیں جو ترکی نے آزربائیجان اور آرمینیا کی لڑائی میں آرمینیا کے خلاف استعمال کئے تھے۔ ان کے زریعے آرمینیا کے Tanksاور پورے
artillery and air defenseکو تباہ کر دیا گیا تھا۔ اور آزربائیجان نے آرمینیا کو ان ڈرونز کی مدد سے شکست دی تھی۔ لیکن اب یہ ڈرونز انڈیا کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں۔
اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ کیا ترکی نہیں جانتا کہ اگر یہ ٹیکنالوجی انڈیا کے ہاتھ میں جاتی ہے تو وہ اسے کس کے خلاف استعمال کرے گا۔ کیا طیب اردگان مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت کشیدہ تعلقات سے لاعلم ہیں؟ترک صدر رجب طیب اردگان جو خود کو امت مسلمہ کا لیڈر ثابت کرنا چاہتے تھے جو کل تک پاکستان کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے کہ ہماری حکومت نے سعودی عرب کے دباو میں آکر ملائیشیا کے سمٹ میں شرکت سے انکار کر دیا تھا اب خود وہ انڈیا کے ساتھ اپنی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔آپ کو یاد ہو گا کہ کیسے گزشتہ سال رجب طیب اردگان نے آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد بین الاقوامی لیول پر تو ان پر کافی تنقید ہوئی تھی لیکن مسلمانوں میں ان کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔اس کے بعد جس طرح سے وہ تمام مسلم ممالک کو اکھٹا کر رہے تھے اور ایک الگ بلاک بنانے کی تیاری کی جا رہی تھی اس فیصلے سے بھی طیب اردگان کو کافی پذیرائی ملی تھی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ اور دوسرے فورمز پر ان کی جانب سے کشمیریوں کے حق میں بھی وقتا فوقتا آواز اٹھائی جاتی رہی تھی۔
ترک صدراس بات پر زور دیتے نظر آتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دہائیوں پرانے مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر جلد از جلد ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ حال ہی میں اقوام متحدہ کی193 رکنی جنرل اسمبلی کے
76ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی طیب اردگان کا کہنا تھا کہ۔۔ ہمارا مؤقف یہی ہے کہ فریقین کے درمیان مذاکرات اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے فریم ورک کے تحت کشمیر میں74 برسوں سے جاری مسائل کو حل کیا جائے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ترکی کشمیریوں کے ساتھ ہے، پانچ بڑی طاقتوں کے علاوہ بھی دنیا بہت بڑی ہے۔یہاں تک کہ جب انڈیا کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی اس پر بھی طیب اردگان نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات نے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے اور اب بھی سلگتا ہوا معاملہ ہے۔جس پر انڈیا ان سے کافی ناراض بھی ہوا تھا۔ لیکن کشمیریوں کی طرف سے ان کو کافی پذیرائی ملی تھی۔
لیکن اب وہی طیب اردگان انڈیا کو ڈرونز فراہم کر رہے ہیں اورسوچیں کہ انڈیا یہ ڈرونز حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے کس کے خلاف استعمال کر سکتا ہے تو اس سوال کا جواب بچہ بچہ جانتا ہے کہ انڈیا کا سب سے پہلا ہدف کشمیر اور پاکستان ہوں گے۔ ان سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ کیونکہ چین کے خلاف کچھ کرنے کا تو ویسے ہی مودی سرکار میں کوئی دم نہیں ہے اس لئے وہ اپنے جنگی جنون کو ٹھنڈا کرنے اور اپنی عوام کی نظروں میں اپنی حمایت برقرار رکھنے کے لئے انھیں کشمیر اور پاکستان کے خلاف ہی استعمال کریں گے۔اور اب اگر پاکستان کی بات کی جائے تو طیب اردگان وہ غیر ملکی سربراہ ہیں جنہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ سے سب سے زیادہ بار خطاب کیا ہے۔ اور پاک ترک تعلقات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ترکی پاکستان کا ایسا اتحادی ہے جس کی سرحد پاکستان سے نہیں ملتی لیکن دل اور روح پاکستان سے جڑے ہیں۔ ان دونوں کی دوستی اور محبت چین سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان نے یہاں تک بھی بیان دیا تھا کہ۔۔ ترکی کے لیے کشمیر کی وہی حیثیت ہے جو پاکستان کے لیے ہے۔لیکن اپنے اس دوست کو تو تحفہ دینے کے لئے ترکی کے پاس صرف اور صرف ارطغرل ڈرامہ تھا لیکن ہمارے دشمن کے ساتھ ڈرونز کی ڈیل کرکے دوستی کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھیجنے کے لئے صرف ترک فنکار تھے جو یہاں آئے اور خوب شہرت بھی حاصل کی لیکن انڈیا کے ساتھ کاروبار کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اور کاروبار بھی ایسا جس کا سب سے زیادہ نقصان بھی پاکستان کو ہی ہے۔سوال یہ ہے کہ اب کہاں گئے وہ سب بیانات اور نعرے جب طیب اردگان کی ناک کے نیچے انڈیا ترکی کے ساتھ یہ ڈیل کر رہا ہے۔ اب وہ کیوں خاموش ہیں؟دراصل اس کے پیچھے بھی وہی وجہ ہے جو کہ محمد بن سلمان کے سعودی عرب میں میوزیکل کنسرٹ کروانے کے پیچھے ہے۔
جس طرح وہ اپنی معیشت کا انحصار تیل پر کم کرکے سیاحت اور دوسرے صنعتوں پر شفٹ کرنا چاہتے ہیں اور خوب پیسہ بنانا چاہتے ہیں تو اس ڈیل کے پیچھے بھی دراصل ترکی کے مالی مفادات ہیں۔کیونکہ ترکی کے معاشی حالات اس وقت کوئی زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ ترکی کی کرنسی لیرا کی قدر میں زبردست گراوٹ دیکھی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے ترکی کو اگست
2018 میں اس طرح کے بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ترکی کا تنازع شروع ہوا تھا اور ٹرمپ نے ترک مصنوعات جیسے سٹیل اور المونیم پر عائد ٹیرف کو دگنا کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے لیرا کی قدر تاریخی کم ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ اسی طرح اب بھی لیرا کی قدر ڈالر مے مقابلے میں چالیس فیصد تک کم ہو کر رہ گئی ہے۔کرنسی کے بحران نے کئی ترک شہریوں کو سرکاری طور پر طے شدہ غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے جس پر کئی شہریوں کی جانب سے انقرہ اور استنبول میں احتجاج بھی کیا گیا ہے۔ترکی میں Inflation 21%تک بڑھ چکی ہے۔اور ترکی کی اس صورتحال کا ہمارے دشمن نے مکمل فائدہ اٹھایا ہے۔ اور مودی سرکار نے پاکستان کے دوست ملک کو اپنی جیب میں ڈال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ امت مسلمہ کچھ نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں میں اتحاد نام کی کوئی چیز باقی ہے۔ اس وقت اگر کوئی چیز اہم ہے تو وہ صرف اور صرف مالی مفادات ہیں۔