بابا اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ ” پتر سب نے ہی مر جانا ، اگر ژندہ رہنا تو اس نے جو لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا” -یوں تو میں دنیا میں ہر روز ہی کئی لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کئی مرتے ہیں پر چند ایک ہی ایسے ہوتے ہیں جن کے آنے کی خوشی اور جانے کا غم سب کو ہی ہوتا ہے ۔29 جنوری 2022 کا دن بھی ایک ایسا ہی دن تھا ، جو کہ آزاد کشمیر و ضلع کوٹلی کی عوام کے لیے بالعموم اور کھوئیرٹہ کی عوام کے لیے بالخصوص ایک ایسے نقصان اور دکھ کی خبر لے کر آیا جس کا ازالہ شاید کئی عشروں تک ممکن نہ ہو –
کھوئیرٹہ کے جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والے راجہ اقبال سکندر خان کی وفات کی خبر جہاں جہاں بھی پہنچی ، لوگوں کو سوگوار ہی کرتی گئی ۔
دنیا میں بہت کم لوگ ہی ایسے پیدا ہوتے ہیں جو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوں اور عاجزی و انکساری کی اعلی مثال بھی ہوں – راجہ اقبال سکندر خان ( المعروف پہاجی) بھی ایک ایسی ہی شخصیت تھے –
ان کی تربیت ہی ایسے گھرانے میں ہوئی تھی جہاں عاجزی و انکساری ، مہمان نوازی اور دوسروں کی مدد کا جزبہ گویا بچپن سے ہی بچوں کی تربیت میں شامل ہوتا تھا -جاگیردار گھرانے کے سپوت ہونے کے باوجود راجہ اقبال سکندر خان صاحب اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ اگر دنیا میں اور لوگوں میں ہمیشہ زندہ رہنا ہے تو اس کے لیے مال و دولت یا زمینوں کی نہیں ، بلکہ اعلی اخلاق کی ضرورت ہے –
خواہ آپ کے دوست و ہمدرد ہوں یا سیاسی مخالفین ، سب اس بات پر اتفاق کرتے نظر آتے ہیں کہ مرحوم کی وفات کے بعد ایسا خلا بن چکا ہے جو شاید کبھی بھی پر نہ ہو۔
1975 میں جب حکومت پاکستان نے کشمیر ڈویلپمنٹ کوآپریٹو بینک بنایا تو آپ اس میں افسر منتخب ہوئے پر یہ بینک 1977 میں حکومت پاکستان میں تبدیلی کے ساتھ ہی بند ہو گیا -اس کے بعد سال 1979 میں راجہ اقبال سکندر خان مرحوم نے سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا – 1979 میں آزاد کشمیر کے بلدیاتی انتخابات میں ممبر ضلع کونسل کا الیکشن لڑ کر ممبر منتخب ہوئے-
1983 کا الیکشن اس حوالے سے یادگار رہا کہ اس میں راجہ محمد نثار خان صاحب آپ کے مخالف لڑے پر کامیابی نے پھر راجہ اقبال سکندر خان صاحب کے قدم چومے – تیسرا الیکشن 1987 ، جبکہ چوتھا 1992 میں لڑا اور جیت کر چیئرمین ضلع کونسل بنے -1996 تک آپ چیئرمین ضلع کونسل رہے اور یہ آخری موقع تھا جب کہ آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے -آزاد کشمیر کی سیاست میں یونیورسٹی کا درجہ رکھنے والے مرحوم سردار سکندر حیات خان بھی راجہ اقبال سکندر خان صاحب کی صلاحیتوں کے معترف تھے ۔ اس کا عملی ثبوت 2006 میں دیکھنے کو ملا ، جب سردار سکندر حیات خان صاحب نے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا ٹکٹ لا کر راجہ اقبال سکندر خان صاحب کو گھر دیا ، مگر راجہ اقبال سکندر خان صاحب نے 2006 کے عام انتخابات کے لیے ٹکٹ راجہ نثار علی خان صاحب کو دیا اور ان کی بھرپور حمایت بھی کی –
جب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آزاد کشمیر میں بنی تو راجہ اقبال سکندر خان کا نام اس حکومت کے اہم ترین لوگوں میں ہوتا تھا -مگر چند ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر اور عوام علاقہ کے بھرپور اصرار پر 2021 کے عام انتخابات میں راجہ اقبال سکندر خان صاحب نے اپنے چھوٹے بیٹے ایڈوکیٹ راجہ شاداب سکندر خان کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑایا –
آپ کے ایک فرزند راجہ شہریار سکندر خان اس وقت آزاد کشمیر پولیس میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہیں ۔
آپ کی اولاد میں موجود عاجزی و انکساری آپ کی تربیت اور اعلی اخلاق کی بہترین مثال ہے ۔
راقم کی راجہ اقبال سکندر خان صاحب سے دو ملاقاتیں ہوئیں ۔ ان ملاقاتوں میں پل کا کردار میرے دوست و بھائی ایڈوکیٹ راجہ تیمور علی خان صاحب (یہ راجہ اقبال سکندر خان صاحب کے بھتیجے اور راجہ قیصر صاحب کے فرزند ہیں) کا تھا ۔ جامعہ میرپور میں یونیورسٹی فیلو ہونے کی وجہ سے راجہ تیمور صاحب کے ساتھ کھوئیرٹہ جانے کا موقع ملا – پر راجہ اقبال سکندر خان صاحب سے ملاقات کر کے کبھی ایسا نہیں لگا کہ کسی روایتی "جاگیردار” کے پاس بیٹھا ہوں یا پھر یہ کہنا بھی مناسب ہو گا کہ مرحوم راجہ اقبال سکندر خان صاحب پیدا جاگیردار گھرانے میں ہوئے تھے پر درویشی کے اعلی درجے پر فائز تھے –
اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اللہ تعالیٰ راجہ اقبال سکندر خان صاحب کی بخشش فرمائیں ، اور مرحوم کی انے والی تمام منازل آسان فرمائیں – اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں