میری بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرنا ” رحیم یار خان میں تعینات سب انسپکٹر میری روز نے زندگی سے ناطہ توڑنے سے چند لمحات پہلے ان لفظوں میں لپٹی التجا کر کے معاشرے میں موجود عورت کی اصل حیثیت کی پوری داستان سنا ڈالی۔۔اس نے خود تو جیسے تیسے زندگی گزار دی مگر جاتے جاتے بیٹیوں کے مستقبل کے بارے دل میں موجود خوف کو عیاں کر گئی اس ایک جملے میں شکوہ بھی ہے اور وہ درد بھی جس نے اسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔وہ عورت جس نے تعلیم حاصل کی ایک ایسے شعبے کو چنا جس میں مضبوط اعصاب کا ہونا پہلی شرط مانی جاتی ہے مگر نہ جانے ان اعصاب پر کیا کچھ بیتا تھا جس نے برداشت کی ہر حد کو کرچی کرچی کر کہ رکھ دیا جس نے اس سوچ کو ہی اعصاب سے کھینچ اتارا کہ معصوم بیٹیاں ماں بن ادھوری رہ جائیں گی بس سسکتی زندگی کے اس درد سے فرار کی جو راہ چُنی تو وہ محض جیتا جاگتا جہاں ہی چھوڑ جانا ٹھہرا۔۔
معاملات کی چھان بین ہوگی میرا نہیں خیال کہ ہمارے قوانین میں کوئی ایسا قانون بھی ہے جو خود کشی کے پیچھے کار فرما عوامل اور عناصر تک ہاتھ ڈال سکے۔۔کچھ خبریں یہ بھی ہیں کہ روز میری ڈی پی او رحیم یار خان سے چھٹی کے معاملات پر دل برداشتہ تھیں جبکہ شوہر نے اسی شعبے سے وابستہ ہونے کے باوجود بیوی کے ذہنی تناؤ میں کمی کرنے کے بجائے اس قدر اضافہ کیا کہ اسے چاروں طرف کے در بند دکھائی دینے لگے۔بیوی کے لیے شوہر ہی وہ واحد سہارا ہوتا ہے جس سے دکھ درد میں امیدوں کا ہر دھاگہ بلا تکلف باندھ دیتی ہے جب حالات اس نہج پر لے آئے کہ خوشیوں میں ساتھ نبھانے والے سے اب الجھنوں میں بھی ساتھ مانگا جائے تو سوائے بے رخی اور اجنبیت کے کچھ دکھائی نہ دیا۔۔نہ جانے کتنی راتیں اس امید میں بتا دی گئیں ہونگی کہ صبح ہوتے میرا ہمسفر میری راہیں آسان کرنے کے لیے میرا ہاتھ تھام لے گا مگر دن گزرتے گئے بڑی بیٹی چار سال کی ہوگئی زندگی کھلکھلانے کے بجائے سسکنے لگی تو سب انسپکٹر روز میری نے آزمائش میں مایوسی دینے والے اس رشتے کو الوداع کہہ ڈالا۔۔اور راہ یہ ڈھونڈی کہ شوہر سے علیحدگی لینے کے بجائے اپنے وجود کو اس دنیا سے ہی الگ کر دیا جائے۔۔
سوچتی ہوں کہ وہ سرخی جس سے الوداعی پیغام لکھ کر چلی گئی وہی لال شوخ رنگ کی سرخی جسکے کھلے رنگ میں نہ جانے کتنے خواب ہونگے کتنی حسیں خواہشات ہونگی ایک ہنستی بستی ازدواجی زندگی جسکی چاہ ہر عورت کے دل پر سجی تحریر ہوتی ہے پھر ان خوابوں کو روندتے مسلتے اور بے توقیر ہوتے دیکھ کر وہ کس قدر ٹوٹی ہوگی۔۔
ہم جیسے ترقی پذیر ممالک میں بڑھ چڑھ کر خواتین کے حقوق کی بات کی جاتی ہے پلے کارڈز اٹھائے جاتے ہیں اعدادوشمار کا ایک چارٹ ہر سال پیش کیا جاتا ہے جس میں ان پر تشدد زیادتی انکے حقوق کی سلبی کے کئی واقعات شامل کیے جاتے ہیں ہم اکیسویں صدی میں ہوتے ہوئے بھی چار سال کی اس بچی کا جنازہ اٹھاتے ہیں جس سے چالیس سال کے مرد نے زیادتی کی ہوتی ہے اور پھر اسکی سانسیں روک دینے پر بھی وہ با اختیار نظر آتا ہے ونی، وٹہ سٹہ اور قرآن سے شادیاں یہ وہ پست رسمیں ہیں جو آج بھی ہمارے دیہی علاقوں میں بلا خوف و خطر وڈیروں اور جاگیر داروں کا پسندیدہ کھیل سمجھا جاتا ہے۔۔
ملک کی آبادی کا اکاون فی صد حصہ خواتین پر مشتمل ہے ملک کی مجموعی ترقی اور مہنگائی کے اس دور میں اگر پڑھی لکھی عورت شادی کے بعد اپنا کرئیر جاری رکھنا چاہتی ہے تو اکثریت کے لیے یہ جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے بچوں اور سسرال کی زمہ داری شوہر کے فرائض گھر کے کام کاج جیسی رکاوٹوں کو وہ خوشی خوشی عبور کر بھی لے تو اسکے لیے نوکری جاری رکھنا مشکل سے مشکل بنا دیاجاتا ہے۔۔میں کئی ایسی خواتین کو جانتی ہوں جو ہر رات شوہر سے جنسی اور جسمانی تشدد بطور سزا اسلیے سہتیں کہ وہ صبح دفتر جاتے ہوئے خود کو مرد سے زیادہ با اختیار اور لائق فائق نہ سمجھ بیٹھیں۔انکے اعتماد کو روندنے کے لیے ہمسفر کہلانے والا مرد ہر حد تک جاکر اسے ذہن نشین کراتا ہے کہ عورت ہو لاکھ پیسہ کما لو یا نام بنا لو مرد کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی مرد طاقتور ہے۔۔یہ وہ پست سوچ ہے جسکا سامنا اس دور میں بھی کئی کام کرنے والی خواتین کرتیں ہیں اولاد در بدر نہ ہوجائے،باپ بھائی کی عزت پر آنچ نہ آجائے،اگر پولیس میں شکایت کی تو شوہر جان سے ہی نہ مار دے اور سب سے بڑھ کر طلاق کا خوف کیونکہ ہمارا معاشرہ موت کو طلاق پر ترجیح دیتا ہے یہ وہ خدشات ہیں جن کی وجہ سے وہ تشدد تو برداشت کرتی رہتی ہیں مگر زبان نہیں کھول پاتیں کئی تو ایسی ہیں جو شوہروں کی جانب سے موٹی موٹی گالیاں اور کردار کشی پر بھی خاموش ہوجاتی ہیں۔۔ جو سب سے اہم نقطہ ہے اسے ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے اور وہ ہی کمزور خاندانی نظام میں گھسیٹے جانے والے ازدواجی رشتے۔۔رشتے کی نوعیت تو ایک جیسی ہوتی ہے مگر اپنی بیٹی اور دوسرے کی بیٹی کے متعلق ہماری سوچ تقسیم ہوجاتی ہے۔۔ہم اپنی بیٹی کے سکون کے لیے ہر ایک قدم اٹھانے کو تیار ہوتے ہیں داماد سے ہر ایک توقع پر پورا اترنے کا تقاضا کرتے ہیں۔۔بیٹی کے ہنستے بستے گھر کی تمنا ترجیح ہوتی ہے مجال ہے داماد کی جو بیٹی کی آنکھ میں ایک آنسو بھی لانے کا گناہ گار ہو۔۔مگر بہو جو آپکے خاندان کا فرد بننے کے لیے اپنا گھر چھوڑ آئی اپنی عادتیں اپنی خواہشیں اپنے سارے ارمان بابل کے آنگن کو سونپ آئی۔۔اب یہ ذمہ داری اسکے شوہر سمیت سسرال کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اسے تحفظ فراہم کریں اسکی آسانی کے لیے اسکا ساتھ دیں اسکی مشکلات کو حل کرنے کے لیے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔۔مگر جب اسے نئے گھر میں اپنائیت کے بجائے اجنبیت، سکون کے بجائے ناچاقی،ساتھ کے بجائے تنہائی اور لاڈ کے بجائے تشدد ملے گا تو وہ ٹوٹے گی بھی اور بکھرے گی بھی۔۔قران بھی شوہر کو عورت کو قوام قرار دیتا ہے مگر جب محافظ اور رکھوالا ہے آپ کو غیر محفوظ ہونے کا احساس دلانے لگے تو پھر وہ عورت کہاں جائے۔۔گھر سے نکلتے سمے اسے کہا جاتا ہے سسرال میں نبھا کرنا اب وہی تمہارا گھر ہے۔۔کتنی عجیب سی بات ہے ناں کہ سرخ آنچل اوڑھ لینے کے بعد وہ بابل کے گھر سے تو عورت پرائی ہوئی تھی مگر پیا گھر میں بھی اسے اپنا نہیں سمجھاجاتا۔۔ تبھی روز میری نے سوچا ہوگا کہ شاید قبر ہی واحد جگہ ہے جو کم از کم اسکی اپنی تو ہوگی۔۔۔۔
@NayyarZakia








