آزادی صحافت پر حملہ
آزادی صحافت پر حملہ
کشمیری بھارتی جبر کا شکار ہیں جبکہ دنیا خاموش ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں ایسے ایسے سانحات ہوئے کہ انسانیت بھی شرما گئی لیکن عالمی ضمیر بیدار نہ ہوسکا۔ اگست 2019 سے مقبوضہ علاقوں میں لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ ہے۔ ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور بازار ایک سال سے زائد عرصے سے بند تھے جبکہ ہر طرف کرفیو نافذ تھا۔ شہری بنیادی سہولیات کے لیے سسکیاں لیتے رہے لیکن کوئی نرمی نہیں دکھائی گئی۔ کورونا کی عالمی وبا کے دوران بھی کشمیری ادویات اور ویکسین کے لیے ترستے رہے لیکن مودی سرکار کی بے حسی برقرار رہی۔لاکھوں کشمیری آبادی کے لیے چند وینٹی لیٹر تھے۔ تاہم مودی سرکار کی بربریت کم نہیں ہوئی۔ بھارت کی حکمران فاشسٹ جماعت بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کر رہی ہے ۔ مسلم اکثریت کو ختم کرنے کے لیے خاص طور پر مسلم آبادیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اب مقبوضہ کشمیر واحد ریاست ہے جہاں مسلمان اب بھی اکثریت میں ہیں۔فاشسٹ مودی سرکار کے حالیہ اقدام پر نظر ڈالی جائے تو آزادی صحافت پر حملہ ہوا ہے، کشمیر پریس کلب کو بند کردیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے کلب کو اپنی تحویل میں لے کراس کو تالہ لگا دیا ہے۔ تین بڑے کشمیری اخبارات کے اشتہارات بلاک کر دیے گئے ہیں۔گزشتہ تین سالوں میں درجنوں صحافیوں کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے ہراساں کیا ہے۔ ڈیوٹی کے دوران چھ صحافی جان کی بازی ہار گئے جبکہ چھ میڈیا اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ کشمیر کے صحافیوں کو ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے اکثر سزائیں دی جاتی ہیں اور اس گھناؤنی جبر کی وجہ سے، انہوں نے طویل عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں مختلف خطرات کا مقابلہ کیا اور خود کو متحارب فریقوں کے درمیان پایا۔ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق ہندوستان 142 ویں نمبر پر ہے جب کہ یہ 2016 میں 133 سے مسلسل نیچے آ گیا تھا۔ ہندوستان کو صحافت کے لیے "برے” سمجھے جانے والے ممالک میں شامل کیا گیا ہے اور صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں شامل ہے۔
ہندوستان کے پڑوسیوں میں، نیپال 106 پر ہے، سری لنکا 127 پر ہے، اور میانمار، فوجی بغاوت سے پہلے 140 پر ہے۔ صحافت کے لیے اور صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک میں ہندوستان کو "خراب” قرار دینے کی واحد وجہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی اور ہندوتوا نظریہ ہے جس نے صحافیوں کے لیے خوف کا ماحول پیدا کیا جو حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انھیں "ملک دشمن” قرار دیتے ہیں۔ یا "مخالف ریاست”۔جس نے اپنا 2021 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس شائع کیا ہے کہ صحافیوں کو "ہر قسم کے حملے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بشمول نامہ نگاروں کے خلاف پولیس تشدد، سیاسی کارکنوں کی طرف سے گھات لگانا، اور مجرمانہ گروہوں یا بدعنوان مقامی اہلکاروں کی طرف سے انتقامی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ہندوستانی جو ہندوتوا کی حمایت کرتے ہیں، وہ نظریہ جس نے ہندو قوم پرستی کو جنم دیا، عوامی بحث سے ’ملک دشمن‘ سوچ کے تمام مظاہر کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوشل نیٹ ورکس پر ان صحافیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جاتی ہے جو ہندوتوا کے پیروکاروں کو ناراض کرنے والے موضوعات کے بارے میں بولنے یا لکھنے کی ہمت کرتے ہیں اور ان میں متعلقہ صحافیوں کو قتل کرنے کے مطالبات بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں خاص طور پر اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح ہندوستانی حکومت 2020 نے پریس کی آزادی کو دبانے کے لیے کرونا وائرس جیسی وبائی بیماری کا فائدہ اٹھایا۔ اس نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ کشمیر کی صورتحال اب بھی بہت تشویشناک ہے، کیوں کہ صحافیوں کو پولیس اور نیم فوجی دستوں کی طرف سے ہراساں کیا جاتا رہا، جو کہ اس کے بقول "مکمل طور پر اورویلین مواد کے ضوابط کی وجہ سے ہے۔کولمبیا جرنلزم ریویو میگزین کے مطابق، بھارتی حکومت نے ٹویٹر سے کہا کہ وہ 2020 میں تقریباً 10,000 ٹویٹس کو ہٹائے جو کہ پچھلے دنوں میں 1200 کے مقابلے میں تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت بھارت اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کو کنٹرول کر رہی ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال تشویشناک ہے۔ مظلوم کشمیریوں کا کوئی سوال نہیں، کوئی سننے والا نہیں۔ ظلم کا یہ سلسلہ 1947 سے جاری ہے۔کشمیریوں کو صرف اس لیے سزا دی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے ہر غم اور خوشی میں پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اب دنیا کو کشمیریوں کو ان کا حق دینا ہوگا۔ ریفرنڈم کے وعدے کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔بھارت اس وقت مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ متنازعہ نئے شہریت قوانین کی آڑ میں غیر کشمیریوں کو کشمیر ڈومیسائل جاری کیے جا رہے ہیں۔ متنازعہ علاقے کی آبادی کو تبدیل کرنا جنیوا کنونشنز کے آرٹیکل 49 کی خلاف ورزی ہے۔مقبوضہ علاقوں میں کرفیو کا نفاذ، انٹرنیٹ، فون، کیبل اور مواصلات کے دیگر ذرائع کو بند کرنا انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت قتل، نوجوانوں کے اغوا اور قتل، لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی اور بوڑھوں کے خلاف تشدد ہندوستانی جمہوریت کا منہ کالا کرنے کے مترادف ہے۔ ہندوستان ایک سیکولر جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جب کہ حقیقت میں یہ ہندوتوا اور انتہا پسندانہ نظریات کا پرچار کرنے والی ریاست ہے جہاں اقلیتوں اور مخالفین کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے۔ کیا دنیا صرف دکھاوا کر سکتی ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا؟ ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کہتے ہیں کہ 1989 میں روانڈا میں ایسا ہی ہوا تھا۔ نسل کشی جو شروع ہوئی، اور نفرت انگیز تقریریں ہوئیں، یہ سب ابتدائی نشانیاں تھیں، اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں، کشمیر میں خونریزی ہو رہی ہے اور بھارتی عزائم اور اقدامات واضح طور پر ہندوتوا نظریے کی عکاسی کرتے ہیں۔ امن اور انسانیت پر یقین رکھنے والے ہر ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس انسانی بحران کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک متحد اور مربوط محاذ قائم کرے۔