عمران خان نے شہباز گل پر جنسی تشدد کا الزام لگا دیا، جنسی تشدد کا لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے ہمارے ملک میں اسے مخصوص تناظر میں دیکھا جاتا ہے جبکہ نازک اعضاء کو اذیت پہنچانا بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اور ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کے راہنما کی طرف سے ایسا الزام یہ بتاتا ہے کہ اب مفاہمتی سیاست ختم کر کے جارحانہ سیاست شروع کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے اور پاکستانی سیاست آنے والے دنوں میں مزید غلیظ ہو گی_
یہ ایسا الزام ہے جو مسلم لیگ کی جلدی جلدی جان نہیں چھوڑے گا شہباز گل کی گرفتاری اور ان پر تشدد کو اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں فتح کے بعد انہوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں پنجاب کا صوبائی وزیر داخلہ بنا دیا جائے تاکہ پی ٹی آئی کے اسلام آباد لانگ مارچ کے دوران جو لوگ بھی پی ٹی آئی کے کارکنان پر تشدد میں ملوث رہے ان کے خلاف کارروائی کر سکیں _
لیکن ان پر ہی تشدد کر کے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا عمران خان نے رجیم چینج کے بیانیے پر جس طرح عوام میں جوش اور ولولہ پیدا کیا تھا شہباز گل والے واقعے سے اس میں مزید شدت پیدا ہو گئی ہے اور پی ٹی آئی کے کارکنان مزید متحرک ہو گئے ہیں اور اس سارے معاملے میں حکومتی وزراء کے بوکھلاہٹ والے بیانات سن کر لگتا ہے کہ شہباز گل والے معاملے میں ان کا ہوم ورک مکمل نہیں تھا_
وہ میڈیا پر بیٹھ کر خود تسلیم کر رہے ہیں کہ "شہباز گل وہ طوطا ہے جس میں عمران خان کی جان ہے”، ان بیانات کو لے کر عوام میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت عمران خان کو جھکانے یا بلیک میل کرنے کے لئے اب انتقامی کاروائیاں کر رہی ہے اور حکومت اپنے اقدامات سے خود پی ٹی آئی کو مظلوم اور خود کو ظالم ثابت کر رہی ہے _
انتظامی معاملات میں پرویز الٰہی ملنے والے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں وزیر اعلیٰ بننے کے بعد گجرات کے پہلے دورے پر انہوں نے کنجاہ اور جلال پور جٹاں کو تحصیل بنانے کا اعلان کر کے وہاں کے لوگوں کو اپنے حق میں کر لیا اس کے علاوہ متعدد سکول، کالج اور ہسپتال اپ گریڈ کرنے کا حکم دیا جبکہ تمام ڈویژن میں سیف سٹی نظام لانے کا اعلان کیاان اقدامات کی وجہ سے ان کی اپنے علاقے میں سیاسی پوزیشن مزید مضبوط ہو گئی جبکہ ایجوکیٹرز کی 16000 خالی سیٹوں پر بھرتی کے اعلان کی وجہ سے انہیں سرکاری ملازمین کی مزید حمایت حاصل ہو گئی_
مسلم لیگ کی موجودہ معاملات میں نالائقی کھل کر سامنے آ رہی ہے سیاسی معاملات میں وہ عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ نہیں کر پا رہے جبکہ انتظامی معاملات میں پرویز الٰہی کے انقلابی اقدامات ان کے لئے سردرد بنے ہوئے ہیں مسلم لیگ میں موجود ایک گروپ نے بڑی محنت سے عوام کو یہ باور کرایا تھا کہ شہباز شریف اپنے بھائی سے زیادہ قابل ہیں بس انہیں موقع نہیں مل رہا اور اب موقع ملنے پر وہ اپنی قابلیت کے ایسے جوہر دکھا رہے ہیں کہ مسلم لیگ میں موجود ان کے حمایتی ملک اور جماعت کی بہتری کے لئے اب نواز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔
اصل میں شہباز شریف صاحب ون مین آرمی مشہور ہیں وہ دوسروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں جبکہ نواز شریف صاحب اپنے اردگرد موجود لوگوں سے ان کی قابلیت کے مطابق کام لیتے تھے اس وجہ سے ان کے اردگرد موجود لوگ سمجھتے تھے کہ ہم نواز شریف کے لئے اہم ہیں جبکہ شہباز شریف صاحب سے انہیں شکایت ہے کہ وہ انہیں ان کی قابلیت کے مطابق مقام نہیں دے رہے_
وہ سوچتے ہیں جب سب اچھے کاموں کا کریڈٹ شہباز شریف کو ملنا ہے اور بعد میں انکوائریاں ہم نے بھگتنی ہیں تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنی جان کو عذاب دیں سیاسی جب تک اقتدار میں ہیں عیاشی کرتے ہیں اپوزیشن میں ہوں تو انکوائری ہونے کی صورت میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں جبکہ دوبارہ حکومت میں آ کر اپنے خلاف بنے کیس ختم کر لیتے ہیں جبکہ ہمیں حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا الٹا باقی نوکری بھی کھڈے لائن اور انکوائریاں بھگتنے میں گزرتی ہے_
اگر شہباز شریف صاحب محکموں سے کام لینا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ سرکاری ملازمین کو اعتماد اور تحفظ دیں کہ ان کے احکامات اور منظوری پر سرکاری جو بھی کام کریں گے ان کی ذمہ داری وزیراعظم اٹھائیں گے اور وہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کو ان کی قابلیت کے مطابق اہمیت دیں نہیں تو وہ ساری عمر پچھتائیں گے کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں وزیر اعظم بن کے انہوں نے ایک گناہ بےلذت کیا _