ماسکو:کیا دنیامیں امریکی ڈالرکی اجارہ داری ختم ہونے جارہی ہے:حقائق سامنےآگئے،دنیا اس وقت ڈالر کی اڑان کو دیکھ رہی ہے لیکن عالمی طاقتیں جن میں روس ، چین ، ترکی اور چند دیگراتحادی ڈالرکے مستقبل کو مخدوش ہوتا دیکھ رہے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ آب جہاں ایک سپر پاور کے طور پر واشنگٹن کے موقف میں کمی آ رہی ہے، امریکہ کو ایک اور تلخ حقیقت کا سامنا ہے۔ امریکی ڈالر کی گراوٹ کا امریکی حکام کو یقین ہونے چلا ہے ، کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہوجائے گا

اس وقت امریکی ماہرین معاشیات نے خبر دار کیا ہے کہ تمام اشارے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ غیر امریکی مرکزی بینکوں کے ذخائر میں موجود امریکی ڈالر کی رقم کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ، جو اب تک کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے، اب قرضوں کی دلدل میں مزید دھنس رہا ہے ، یہ ایک اور واضح علامت ہے کہ امریکی ڈاکر کے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ امریکہ کی بے جاپابندیوں نے دیگرملکوں کو امریکی امتیازی رویے کو سمجھے کا موقع دیا ہے اوریہ ممالک اور قوتیں اب بار بار امریکی پابندیوں کی زد میں آکرڈالرکے ہاتھوں رسوا نہیں ہونا چاہتیں ، اس لیے اب ان ملکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آہستہ آہستہ ڈالرکی اجارہ داری ختم کردی جائے گی

یہی وجہ ہے کہ امریکی پابندیوں سے متاثر ملک اس طرح ایران، روس اور چین جیسے ممالک ڈالر کے مکمل خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ترکی بھی ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے کے لیے ان ملکوں‌ کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنا چاہتا ہے

یہ بھی بات سامنے آچکی ہے کہ روس ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے کےلیے برسوں سے کام کررہا ہے اور اب اس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے،

روس کے نائب وزیر خارجہ الیگزینڈر پینکن نے کہا ہے کہ ” مغرب کے بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی دباؤ کے خلاف، روس اور اس کے شراکت داروں کے درمیان مستحکم تجارتی، اقتصادی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کی ضمانت دینے کا واحد طریقہ ڈالر اور یورو سے بچنا ہے۔

نائب وزیر خارجہ پنکن نے یوکرین میں روس کے خصوصی فوجی آپریشن کی وجہ سے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی پابندیوں کے ساتھ مل کر مغرب کی طرف سے بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی دباؤ پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین اور نیٹو ماسکو کے ساتھ جنگ ​​کے لیے ایک اتحاد قائم کرچکے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ ان حالات میں جب ایک طرف امریکی پابندیاں‌ہیں تو دوسری طرف روس اس بات پرسوچنےپر مجبور ہوا ہے کہ روس کو اب ڈالرکی اجارہ داری کو مسترد کردینا چاہے اور دنیا میں ڈالراور یورو کے مقابلے میں‌ ایک نئی کرنسی یا ملکوں کی کرنسیوں میں تجارت کرنے پر سوچنا چاہیے ،

ڈالر کی تخفیف کے اقدام کو اس وقت تیزی سے ٹریک کیا گیا جب امریکی محکمہ خزانہ نے روس کے امریکی ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر کو ضبط کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کی وجہ سے دوسرے ممالک کو اپنے مالیاتی ذخائر کو امریکی ڈالر میں رکھنے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر ان کا ملک امریکی خارجہ پالیسی کی پابندی نہیں کرتا ہے تو اس کے بعد ہراساں اور بدنام کیا جا سکتا ہے۔ انہیں کم از کم ثانوی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس لیے روس، چین اور ایران جیسے ممالک کے لیے اپنی قومی کرنسیوں کے ساتھ تجارت کرنا ایک فطری پیش رفت تھی۔

روسی نائب وزیر خارجہ، الیگزینڈر پینکِن کے مطابق، مغربی کرنسیوں کے بجائے قومی کرنسیوں میں بین الاقوامی تصفیہ کے طریقہ کار کو کامیابی کے ساتھ متعدد ممالک کے ساتھ تشکیل دیا گیا ہے اور روس کے بعض زمروں اور برآمدی سامان کے لیے روبل میں ادائیگی کا امکان بھی شامل ہے۔

ان کا یہ بھی کہا تھا کہ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اب ڈالر کے ساتھ کیا ہوتا ہے کیونکہ مجھے شبہ ہے کہ اس کی کافی کمزوری ہوگی اور ضرور ہوگی کیونکہ عالمی معیشت سست روی کا شکار ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تاثرپایا جاتا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں دیگرکرنسیوں میں تجارت اتنی محفوظ نہیں ہوگی جتنی ڈالرکے ساتھ ہے ، تو ان کے لیے عرض ہے کہ جب روس اور دیگراتحادی ممالک اپنی اپنی کرنسی میں تجارت کریں‌گے تو مقامی کرنسی بھی مضبوط ہوگی اور ڈالربھی کمزور ہوگا

ایسا لگتا ہے کہ چین اور روس مغرب کے ساتھ معاشی اور فوجی طاقت دونوں کی جنگ میں الجھ رہے ہیں، ایک ایسی جنگ جس میں مغرب ہارتا دکھائی دے رہا ہے۔
برکس، ایس سی او کے ساتھ ساتھ بہت سی دوسری بین الاقوامی تنظیموں نے اس موضوع پر اپنی کثیرالجہتی گفتگو کو تیز کر دیا ہے، جو کہ انتہائی اہم ہے کیونکہ امریکہ بہت سے ممالک کے ساتھ حق تلفی کر چکا ہے، جن میں سے زیادہ تر مشرق کی طرف یا امریکہ سے دور ہیں۔اس لیے اب امریکی بالادستی ختم کرنے کے لیے پہلے ڈالرکی بالادستی ختم کی جارہی ہے اورپھر اس کے بہترین نتائج بعد میں ملیں‌ گے

Shares: