رسولِ کریم امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سب سے زیادہ آزمائش انبیاء پہ آتی ہے اور پھر ان لوگوں کو زیادہ آزمایا جاتا ہے جو انبیاء کے نزدیک ہوتے ہیں. (مفہوم حدیث)
اس سے ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مشکلات و پریشانیوں سے کوئی محفوظ نہیں بلکہ یہ ہر عام و خاص کو پہنچتی ہیں. اور یہ آزمائشیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں.

اور یہ ان لوگوں کو بھی پہنچیں جنہیں انسانوں میں سے ایک خاص مقصد کے لیے منتخب کیا گیا تھا. اور پھر یہ نہیں کہ انہیں تھوڑی آزمائشیں آئی ہوں بلکہ تمام انسانیت سے زیادہ انہیں ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے یا آپ کو جو مشکل پہنچ رہی ہے اگرچہ مجھے اس کا علم نہیں لیکن وہ مجھ سے پہلے لوگوں کو بھی پہنچتی رہی ہے. اور پھر ہوسکتا ہے جو مجھے تکلیف پہنچی ہے وہ کم ہو. میرے مقابلے میں وہی آزمائش کسی اور کو بہت زیادہ پہنچی ہوگی.

دوسری بات یہ ہے کہ ان مشکلات کے دوران ہمیں وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو انبیاء کرام علیہم السلام نے اختیار کیا. اور وہ لوگ ان آزمائشوں پر ہمیشہ ثابت قدم رہے. صبر و استقامت ساتھ سے ان مشکلات کا سامنا ہی نہیں کیا بلکہ رب کی رضا پہ راضی رہے.

جزع و فزع نہیں کی، اپنی مشکلات کا رونا نہیں رویا.کسی حیلے بہانے کا سہارا نہیں لیا. اس لیے ہمیں بھی چونکہ چنانچہ اگرچہ مگرچہ سے نکل کر خالص اپنے رب کی طرف لوٹنا چاہیے.

ہم مشکلات کی گتھیاں سلجھانے میں لگ جاتے ہیں، چونکہ بحیرہ عرب میں بننے والا سسٹم بہت زور دار اس لیے بارش ہوئی. اور دوبارہ بارشوں کا سلسلہ اس لیے شروع ہوا کیونکہ بنگال کے سمندر میں سسٹم بن رہا تھا. ہمیں نقصان اس لیے زیادہ ہوا کہ ہمارے شہر ترقی یافتہ نہیں. ایسے ہوتا تو یہ ہوجاتا، ہوائیں مشرق سے چلتی تو یہ ہوجاتا ہے.

نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ ہمارے ساتھ کشتی میں آجاؤ لیکن وہ نہیں مانا بلکہ کہنے لگا میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا یہ سیلاب میرا کیا بگاڑ لے گا. عاد و ثمود پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے تھے، اس قدر زیادہ قوت و طاقت کے مالک تھے. اپنے رب کا انکار کیا تو انہیں کوئی نہیں بچا پایا اور ایسے پڑے تھے جیسے کھجور کے تنے گرے ہوتے ہیں.

کیونکہ ایسی حیلے سازیاں ہمارے ایمان کے لیے انتہائی خطرناک ہے. اس سے ہمیں بچنا چاہیے، سوچ سمجھ کر اپنی زبان کو استعمال کریں، ایسےکلمات نہ کہہ بیٹھیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بن جائیں یا پھر جس وجہ سے ہمارے اعمال ضائع ہوجائیں.

اسباب و وسائل کو ضرور اختیار کیا جائے لیکن بھروسہ وسائل دینے والی ذات پر رکھنا چاہیے. یہی ہماری کامیابی کا ذریعہ ہے اور اسی سبب ہم مشکلات سے بھی چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں.

Shares: