کچھ دن قبل برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کی وفات کے بعد سوشل میڈیا پر یہ مہم زور پکڑ رہی ہے کہ برطانیہ کو کوہِ نور ہیرا برصغیر کو واپس کرنا چاہئے۔

کوہِ نور کا ہیرا دنیا کے مہنگے ترین ہیروں میں شمار ہوتا ہے۔ اسکی قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کچھ ہیرا شناس اسے انمول کہتے ہیں۔ مگر بعض اندازوں کے مطابق اسکی قیمت تقریباً 400 ملین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ یعنی آئی ایم ایف کی پاکستان کو موجودہ قسط کا تقریباً آدھا حصہ۔

کوہِ نورفارسی کا لفظ ہے جسکے معنی ہیں روشنی کا پہاڑ۔ اس ہیرے کو کب دریافت کیا گیا۔ اسکا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس حوالے سے کئی مفروضے قائم ہیں۔مگر غالباً اسے بارویں یا تیرویں صدی میں بھارت کی دکن کے قریب کانوں سے دریافت کیا گیا۔

یہ ہیرا موجودہ حالت میں تقریباً 105.6 کیرٹ ہے مگر اس سے پہلے یہ 186 کیرٹ تھا۔ اسے بیسویں صدی میں تراش کر اسکی خوبصورتی میں اضافہ کیا گیا۔ اسکا وزن اس وقت تقریبا 21.2 گرام ہے۔

یہ ہیرا مغلوں کے پاس بھی تھا کیونکہ اسکا ذکر 1526 میں بابر کی لکھی گئی سوانح حیات تزکِ بابری میں بھی ہے۔مگر بعض محقیقین کا خیال ہے کہ تزک بابری میں اس ہیرے کا ذکر نہیں کسی اور پتھر کا ذکر ہے۔ اور یہ ہیرو دراصل بابر کے بیٹے ہمایوں کو گوالیارہ کے گورنر نے پہلی پانی پت کی لڑائی کی جیت کی خوشی میں تحفتاً دیا۔

1739 میں جب ایران سے آئے حملہ آوار نادر شاہ نے دیلی پر قبضہ کیا تو اسکے سامنے یہ ہیرا لایا گیا جس نے اسے کوہِ نور کا نام دیا۔ نادر شاہ کی وفات کے بعد اُسکے افغانستان سے آئے جرنیل احمد شاہ درانی نے دہلی پر سلطنت قائم کی اور ہیرا درانی سلطنت میں رہا۔ 1813 میں سکھوں کے درانی سلطنت کے خاتمے پر آخری درانی بادشاہ شاہ شجا کو بھارت سے بھاگنا پڑا اور یہ ہیرا بطور تحفہ راجہ رنجیت سنگھ کو دینا پڑا۔ یہ ہیرا رنجیت سنگھ سے مہاراجہ دلیپ سنگھ کو ملا۔

جب انگریزوں نے 1849 میں سکھ انگریز جنگ کے اختتام پر پنجاب ہر قبضہ کیا تو یہ ہیرا اُنکے ہاتھ لگا اور اسے ممبئی سے جہاز پر انگلیڈ بھیج دیا گیا جہاں اسے 1850 میں ملکہ برطانیہ کو پیش کیا گیا۔ یوں یہ ہیرا کئی ہاتھ بدلتے بلآخر برطانوی شاہی خاندان کے قبضے میں چلا گیا۔

وہاں اسکو ماہر ڈچ جوہریوں نے تراش خراش سے مزید نکھارا اور موجودہ شکل میں لے آئے۔

آج کوہ نور کو تاجِ برطانیہ کا تاج کہا جاتا ہے۔ مگر اسکی ملکیت پر بھارت اور پاکستان کے علاوہ افغانستان اور ایران بھی دعوی کرتے ہیں۔ ماضی میں اسے بھارت لانے کے لیے کئی کوششیں کی گئی۔ 1976 میں اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو نے بھی اسے پاکستان کو واپس کرنے کی درخواست کی۔ آج بھارت میں اسے واپس بھارت لانے کے لیے کئی سماجی اور حکومتی شخصیات قانونی چارہ جوئی کر رہی ہیں مگر فی الحال برطانوی حکومت یا پرطاموی شاہی خاندان اسے دینے سے انکاری ہے۔

Shares: