نہم کے نتائج ذمہ دار کون ؟
تحریر : رانا شہباز نثار
گذشتہ روز پنجاب میں جماعت نہم کے سالانہ امتحانات کے رزلٹ کا اعلان کیا گیا جس میں1 لاکھ 48 ہزار طلبہ فیل ہو گئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کا فیل ہونا قابل افسوس ہے کہ ہماری انگلی نسل کس طرف جا رہی ہے اس میں کس کا قصور ہے موبائل فون کا بے دریغ استعمال ، کورونا پالیسیوں کی وجہ سے تعلیمی نظام تباہ، والدین کی طرف سے عدم توجہ یا سکولوں میں اساتذہ کی پڑھانے میں عدم دلچسپی۔ اگر اسی طرح ہمارا نظام رہا تو ہم بہت دنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے ۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی میں تعلیم بہت اہمیت رکھتی ہے. بچوں کی پڑھائی میں عدم دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے اسکی وجہ والدین کا بچوں پر توجہ نہ دینا اور بچوں کی تربیت میں اس بات کا خیال نہ رکھنا کہ ان کا بچہ کیا کر رہا ہے آج کل بچے کی توجہ پڑھائی سے زیادہ TikTok اور PUBG کی طرف ہے جتنے بھی بچے فیل ہوئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے زیادہ تر بہت اچھے ٹک ٹاکر اور PUBG کے پلیئر ہوں گےاور والدین بچوں کو سکول چھوڑ کر ساری ذمہ داری ٹیچرز پر ڈال کر سمجھتے ہیں کہ سکول والے خود ہی بچے کی تربیت کر لیں گے۔
اس کے علاؤہ ہمارے اس تعلیمی نظام کی تباہی میں حکومت کا کردار بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ حکومت مفت معیاری تعلیم نہیں دے پا رہی اور پرائیوٹ سکول میں علم دیا نہی جاتا بلکہ بیچا جا رہا ہے پرائیویٹ تعلیمی ادارے تعلیم کے نام پر غریبوں کو لُوٹ رہے ہیں اور اتنی مہنگی تعلیم ہو چکی ہے کہ عام آدمی اپنے بچوں کو تعلیم دینے کی بجائے اسے کسی ورکشاپ یا حجام کی دکان پر رکھوا دیتا ہے کہ کوئی کام سیکھ لے ۔ کورونا وائرس سے جہاں دنیا کی معیشت تباہی ہوئی وہاں سکول بند کرنے سے تعلیمی نظام بھی تباہ ہو گیا بہت سے غریب اور مڈل کلاس طلبہ ایسے ہیں جو کورونا میں سکول چھوڑ کر دوبارہ تعلیم جاری نہیں کر سکے ان میں زیادہ تر بچے گھریلو حالات مہنگائی کی وجہ سے اور تعلیمی اخراجات پورے نہ ہونے کی وجہ سے ہوٹلوں وغیرہ میں یا کسی اور کام پر لگ گئے ہیں۔ مجھے اکثر اوقات باہر ہوٹلوں پر کم عمر بچوں سے ملاقات کا موقع ملا اور جب ان سے سوال کیا گیا کہ بیٹا آپ پڑھتے کیوں نہیں تو ان میں اکثر کا جواب یہی ملتا ہے کہ وہ پڑھنا چاہتے ہیں لیکن گھریلو حالات کی وجہ سے وہ پڑھ نہیں سکے تو وہ کام پر لگ جاتے ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نظام جو ٹھیک کرنے کے لیے اساتذہ، والدین اور حکومت کو بھی اس کام کرنا ہوگا۔ تعلیمی اداروں سے اساتذہ کی سیاسی گروپ بندی ختم کروانی ہو گی اساتذہ کی تعلیمی پراگریس رپورٹ ہر سال کی پبلک کی جانی چاہیے اب جتنے بچے فیل ہوئے ہیں ان میں اساتذہ سے بھی جواب لینا ہو گا کہ اسکی کیا وجہ ہے بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی نہیں یا اساتذہ کرام بچوں کی تیاری ٹھیک سے نہیں کروا سکے۔ ہر استاد اپنے مضمون کے بارے میں رپورٹ دے اگر اساتذہ کے خلاف ایکشن نہیں ہو گا تو ہمارا تعلیمی معیار ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ سرکاری ٹیچرز کے اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ ہم یا ہمارے ساتھی کتنی محنت کرتے ہیں بچوں پر۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مانانوالہ ہائی اسکول کے نہم کلاس میں ٹوٹل 393 طلبہ میں سے 54 لڑکے پاس ہوئے اور 339 لڑکے فیل ہوئے اسی طرح گورنمنٹ گرلز ہائیر سکینڈری سکول میں 329 طالبات میں سے 112 طالبات پاس اور 217 طالبات فیل ہوئیں جو کہ والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے
اب اگر لاہور بورڈ کے اوور آل رزلٹ کو دیکھا جائے تو 266071 طلبہ کا داخلہ ہوا اور 260325 طلبہ امتحان میں شامل ہوئے جن میں سے 112644 طلبہ پاس ہوئے جو کہ 43.27 فیصد ہے اور اس میں سرکاری اسکولز میں سے 118472 طلبہ کا داخلہ ہوا اور 115940 طلبہ نے امتحان دیا جس میں سے 42187 طلبہ پاس ہوئے جو کہ کل رزلٹ کا 36.99 فیصد بنتا ہے ۔ پرائیوٹ سکولز میں سے 73048 طلبہ کا داخلہ ہوا اور 72208طلبہ امتحان میں شامل ہوئے جس میں سے 48211 طلبہ پاس ہوئے جو کہ کل 66.77 فیصد بنتا ہے۔
اس طرح کا رزلٹ اگر ہمارے سرکاری سکولوں میں سے آئے تو یہ لمحہ فکریہ ہوگا پنجاب سرکار کو اس طرف توجہ دینی ہوگی کیونکہ ہماری آبادی زیادہ تر مڈل کلاس طبقہ پر مشتمل ہے اور اتنی مہنگائی میں پرائیویٹ سکولز کے اخراجات برداشت کرنا بہت مشکل ہے تو وہ سرکاری سکولوں میں بچوں کو تعلیم حاصل کرواتے ہیں سرکاری سکولوں میں پرائیویٹ سکولوں کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے اور قابل ٹیچرز میسر ہیں لیکن اس کے باوجود اتنا گندا رزلٹ آیا اس پر وزارت تعلیم ایکشن لے اور تعلیمی نظام کو درست کرے ۔

Shares: