انجنئیرنگ یونیورسٹی کے تھرڈ ائیر میں جب لیاقت ہال میں کمرہ ملا ہوا تو پتہ چلا کہ کوریڈور میں میرے سامنے والے کمرے میں لاوہ بھائی رہائش پذیر ہیں۔ وہ بہت مہمان نواز اور ہر دلعزیز شخصیت تھے اور اسلامی جمعیت طلبا کے سرگرم رکن۔ ان کے کمرے میں ساتھی طالب علموں کی ٹریفک سارا دن رات چلتی اور ساتھ ہی کینٹین سے چائے کی سپلائی جاری رہتی۔
چند دنوں بعد جب تھوڑا تعارف ہوا تو ہم نے لاوہ بھائی سے ڈرتے ڈرتے ان کے سلگتے ہوئے نام کی وجہ تسمیہ پوچھی تو وہ زور دار قہقہہ لگا کر بولے کہ یہ میرے پنڈ کا نام ہے۔ یو ای ٹی میں ایڈمشن ہوا تو میں نے اپنے ہاسٹل کے کمرے کے دروازے پر عبدالرشید فرام لاوہ لکھ دیا۔ وہ دن اور آج کا دن ، اصل نام کی بجائے ہم مسٹر لاوہ اور پھر لاوہ بھائی مشہور ہو گئے۔ اصل نام کسی کو یاد بھی نہیں(مجھے بھی یاد نہیں)۔لاوہ اس زمانے میں جدید دنیا سے کٹے ایک ایسے گاوں کا بام تھا جس میں کوئی ڈائریکٹ ٹرانسپورٹ نہیں جاتی تھی۔
لاوہ بھائی کی یاد اتنے عرصے بعد اب اس طرح آئی کہ جب ہم لاوہ ڈیم کی سائٹ دیکھنے 13 ستمبر 2022 کو واقعی واقعی لاوہ جا پہنچے جو کہ ترقی کرتے اب ضلع چکوال کی ایک تحصیل بن چکا ہے۔ یہ قصبہ مغرب میں میانوالی کے بارڈ پر“ ترپی ندی” کے کنارے واقع ہے جس پر گوروں نے موجودہ پاکستان کے علاقے کا شائد سب سے پرانا نمل ڈیم 1913 میں بنایا تھا جو کہ اب مٹی سے بھر چکا ہے۔ اس ڈیم سے میانوالی کے علاقے موسی خیل کی زمینیں سیراب ہوتی تھیں ۔تاہم لاوہ سے سے 20 کلومیٹر نیچے ہونے کی وجہ سے یہ قصبہ اس پانی سے فائدہ اٹھانے سے محروم تھا جو اس کے بغل سے ہوکر نمل جھیل کو جاکر بھرتا تھا۔
لاوہ اب ایک لاکھ آبادی والا قصبہ بن چکا ہے جس کے لئے پینے کے پانی کا مسئلہ کافی دیر سے آرہا ہے کیونکہ زیرزمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے اور ترپی ندی بھی سارا سال نہیں چلتی جس سے قصبے کو پمپ کرکے پانی پہنچاتے ہیں۔ندی لاوہ قصبے سے کوئی کم ازکم پچاس فٹ نیچے بہتی ہے اور پی ایچ ای کا پمپ اسٹیشن اس کے کنارے ہے۔
13 ستمبر کو ہم لمحکمہ آب پاشی کے آفیسر جاوید اقبال صاحب کے ہمراہ دندہ شاہ بلاول کے راستے اوہ پہنچے جہاں یہ میانوالی تلہ گنگ روڈ سے ہٹ کر جنوب میں 9کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔لاوہ بازار میں مسکراتے چہرے کے ساتھ جناب ظفر علی صاحب نے ہمارا استقبال کیا جو کہ مقامی تعلیمی ادارے کے پرنسپل رو چکے تھے اور کچھ فاصلے پر ہم جناب دوست محمد صاحب کو بھی لے کر آگے بڑھے۔ دوست محمد صاحب حال ہی میں محکمہ مال سے ریٹائر ہوئے ہیں اور لاوہ کی زمینداری سسٹم کو بہت سمجھتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ گھمبیر ڈیم کی چک بندی کراچکے ہیں۔
لاوہ کی واٹر سپلائی ٹینکی سے آگے ہم ترپی ندی میں اتر گئے اور گاڑیاں ندی کے کیچڑ بھرے پتھریلے راستے پر آگے بڑھنے لگیں۔ ایک جگہ راستہ نہ ہونے پر دائیں کنارے کے جنگل میں گھس گئے جس کی گھنی جھاڑیاں اور مٹی اڑاتا راستہ مستنصر حسین تارڑ کے ناول بہاؤ کے “رکھوں” کی یاد تازہ کرنے لگا۔
چند کلومیٹر آگے چلنے کے بعد ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں لاوہ ڈیم بنائے جانے کا امکان ہے۔ ٹیم سائٹ ہر نکل کر اپنے اپنے کام میں جت گئی ۔ پہاڑوں کی جیالوجی چیک ہونے لگی، کچھ انجنئیر دریائی پانی کی پیمائش میں لگ گئے، کسی نے تعمیراتی میٹئیرئل کی تلاش شروع کردی اور کچھ سوشیالوجسٹ ساتھ کی آبادیوں کے سروے پر نکل گئے۔
میری آنکھیں اپنے گُرو کی تلاش میں چاروں طرف گھومنے لگیں جو مجھے ہر ایسی دوردراز سائٹ پر بہت کچھ سکھا جاتا ہے ۔ تھوڑیسی تلاش کے بعد وہ استاد مجھے بائیں طرف کی پہاڑی پر اپنی بکریوں اور بھیڑوں کے ساتھ نظر آگیا ۔ یہ چرواہے کسی بھی سائٹ پر ہمارے سب سے پہلے استاد ہوتے ہیں جوکہ علاقے میں لمبے عرصے سے اپنے جانوروں کے ساتھ گھومنے کی وجہ سے سے اس کے چپے چپے سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ بیک وقت ہائیڈورولجسٹ، جیالوجسٹ، سوشیالوجسٹ اور تاریخ دان ہوتے ہیں۔
میں بائیں طرف کی پہاڑی چڑھ کرر لال خان تک پہنچا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگا۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس 20 بکریاں ، 15 بھیڑیں اور 3 عدد گائیں ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ بچہ تھا تو اس وقت بھی اس سائٹ کا سروے ہوا تھا۔ یہاں بورنگ بھی ہوئی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ ان مقامات کی نشاندہی کرسکتا ہے تو اس نے کہا کیوں نہیں۔ وہ سارا دن تو انہی ٹیموں کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔
لال خان نے مجھے اس علاقے کے لوگوں اور ان کے رسم و رواج ، کیچمنٹ میں موجود درختوں اور جڑی بوٹیوں کے بارے میں بتایا۔ اس نے مجھے وہاں کی وائلڈ لائف بارے بتایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دریا میں کب کب کتنا کتنا پانی آیا۔ اس دوران اس کے ساتھ ہی پاس کے ڈیرے سے اس کا چچا دوست محمد بھی پہنچ چکا تھا ۔ اس عمر رسیدہ شخص سے ہم نے اس کی یاد میں یہاں آنے والے بڑے بڑے پانیوں کے متعلق پوچھا اور جب تک ہماری ٹیمیں کسم مکمل کرتیں ہم ظفر علی ، دوست محمد اور لال خان کے ہمراہ سائٹ کے کونے کھدرے چھانتے رہے۔ بحث چلتی رہی۔ظفر علی صاحب ایک بہت مستعد شخصیت کے مالک تھے جب کہ ان کے مقابلے میں دوست محمد صاحب ایک سنجیدہ شخص۔
دوست محمد نے ہمیں بتایا کہ اس علاقے کی آبادی اعوان قبائل سے تعلق رکھتی ہے اور زیادہ تر لوگ ایک ہی دادے کی اولاد ہیں۔ لاوہ شہر وقت کے ساتھ ساتھ دریا کے کبھی ایک کنارے اور کبھی دوسرے کنارے بار بار آباد ہوتا رہا جس کی تاریخ میں کوئی خاص وجہ نہیں ملتی۔ نیزہ بازی یہاں کا مقبول کھیل ہے اور گھوڑے پالنا ایک شوق۔
شام ڈھلے جب کام ختم ہوا تو ترپی ندی میں واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ہمیں بتائے بغیر ہمارے دوستوں نے لاوہ میں ملک اسلم کے ڈیرے پر چائے کے نام پر ہائی ٹی کا بندوبست کیا ہوا تھا۔اس مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم رات گئے واپس کلر کہار میں اپنے کیمپ آفس پہنچے جہاں سے زمینی سروے ٹیم کو اگلے دن لاوہ ڈیم کے سروے پر روانہ کرنا تھا۔