نیویارک: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اچھے اور پرجوش تعلقات چاہتا ہے۔ عمران خان کی گزشتہ حکومت نے اس سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ سب غیرضروری تھا اور یہ پاکستان کے خودمختار مفادات کیلئے نقصان دہ تھا۔
امریکی خبررساں ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے ایک بار پھر عالمی برادری سے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے ساتھ دینے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے پاکستان میں بہت تباہی ہوئی عالمی مدد سے سیلاب متاثریں کی بحالی ممکن ہوگی، جن ممالک کے پاس وسائل ہیں اور انہیں اللہ نے استطاعت دی ہے انہیں آگے بڑھنا چاہیے اور ریسکیو، ریلیف اور بحالی کی کوششوں میں حصہ ملانا چاہیے، یہ بہت ضروری ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تین ماہ کی سیلابی تباہی سے پاکستان کی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے فوری ڈونر کانفرنس کے انعقاد کی استدعا کی ہے۔ پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بہت زیادہ ہیں، سیکڑوں بچوں سمیت 1600 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، چالیس لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، لاکھوں مکانوں کو نقصان پہنچا، ان کی زندگی کی جمع پونجی ختم ہوگئی، ہزاروں کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوگئیں، ریلوے پل، ریلوے ٹریک، مواصلات کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اس سب کی بحالی کیلئے فنڈز درکار ہیں۔ پاکستان عالمی حدت کا سبب بننے والے عالمی حدت کا ایک فیصد سے بھی کم اخراج کا ذمہ دار ہے۔
ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ جون کے وسط میں سیلاب شروع ہونے سے پہلے پاکستان میں اناج کی قلت اور خام تیل کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کی وجہ سے شدید چیلنجز کا سامنا تھا جو بنیادی طور پر روس یوکرین تنازع کی وجہ سے ہواتھا۔ آسمان کو چھوتی تیل کی قیمتوں کی وجہ سے اس کی درآمد ہماری استعداد سے باہر ہوگئی تھی، بڑے پیمانے پر سیلاب سے ہونے والی تباہی نے ان چیلنجز کو مزید بڑھا دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ دنیا بھر سے ملنے والی امداد کو انتہائی مضبوط اور شفاف طریقہ کار کے تحت ضرورت مند لوگوں تک پہنچایا جائے گا جب کہ بین الاقوامی معروف کمپنیوں کے ذریعے تھرڈ پارٹی آڈٹ بھی یقینی بنایا جائے گا۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور ورلڈ بینک کے اعلی حکام سے ملاقات میں سیلاب کی صورت حال بہتر ہونے تک پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں کی ادائیگی اور دیگر شرائط کو موخر کرنے کی اپیل کی۔ اس کے پاکستان کی معیشت اورعوام پر اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ بہت معاون لگ رہے تھے۔
شہباز شریف نے کہا کہ بھارت کے ساتھ پر امن پڑوسی کی طرح رہنا چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک کشمیر کا تنازع مذاکرات سے حل کرسکتے ہیں۔ ہمیں لوگوں کو کھلانے کے لیے وسائل درکار ہیں۔ تعلیم کے لیے، نوکریوں کے مواقع دینے کے لیے، طبی سہولیات دینے کے لیے، بھارت اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ اسلحے اور دفاعی سامان کی خریداری پر پیسہ خرچ کرے پاکستان بھی (متحمل) نہیں ہوسکتا۔
کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کو سمجھنا چاہئے کہ جب تک کشمیر کا سلگتا ہوا تنازع پرامن مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کیا جاتا ہم امن سے نہیں رہ سکتے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن کا نادر موقع ہے ، افغانستان میں پرامن حالات پاکستان میں بھی امن کی ضمانت ہیں۔ طالبان کے پاس دوحہ معاہدے کی پاسداری کرکے لوگوں کیلئے امن اورترقی کو یقینی بنانے کا ایک سنہری موقع ہے، افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
پاک امریکا تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اچھے اور پرجوش تعلقات چاہتا ہے۔ عمران خان کی گزشتہ حکومت نے اس سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ سب غیرضروری تھا اور یہ پاکستان کے خودمختار مفادات کیلئے نقصان دہ تھا، یہ سب کچھ پاکستان کے عوام کی توقعات کے مطابق نہیں تھا۔