لباس، شخصیت اور تمکنت — شہنیلہ بیلگم والا

0
52

بائیس سال سے درس و تدریس سے وابستہ ہوں. ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے مختلف قومیتوں سے دن رات کا واسطہ رہتا ہے.ان دو دہائیوں میں پہننے اوڑھنے کے اطوار بہت بدل گئے ہیں. آپ اگر انٹرنیشنل لیول کے ادارے میں کام کرتے ہیں تو گمان غالب ہے کہ مغربی پہناوا زیادہ نظر آئے گا. عرب کلچر میں عبایا کے نیچے زیادہ تر مغربی لباس ہی پہنا جاتا ہے. اسی طرح ایشیائی غیر مسلم ممالک کی خواتین بھی زیادہ تر ویسٹرن وئیر ہی پسند کرتی ہیں. پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر جگہ دستیاب ہے اور دوسرا وہی ہماری ذہنی غلامی.

جہاں تک میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے ہم پاکستانی خواتین ابھی تک اپنی اصل سے جڑی ہوئی ہیں. پاکستانی برانڈز کے خوشنما اور انتہائی ڈیسنٹ کپڑے. دلکش پرنٹس، نفیس کڑھائی اور پھر اس پہ بڑا سا دوپٹہ آپ کی شخصیت کو تمکنت اور وقار عطا کرتا ہے.

عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہر کپڑا، ہر فیشن سب کے لیے نہیں ہوتا. لیکن پاکستانی لباس کی خاص بات یہی ہے کہ وہ ہر جسامت، رنگت اور عمر کو سوٹ کرتا ہے. ویسٹرن کپڑے خاص جسامت کے لوگوں پر ہی اچھے لگتے ہیں. پہننے والے پہنتے ہیں لیکن دیکھنے والوں کو کیسے لگتا ہے وہ سب بتاتے نہیں. اس لیے لباس وہی پہننیے جو آپ کو سوٹ کرتا ہو آپ کی پسندیدہ ماڈل کو نہیں.

اپنی اصل سے جڑے ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ نہ صرف پروقار لگتی ہیں بلکہ بطور ایک پاکستانی آپ اپنے کلچر کو پروموٹ بھی کر رہی ہوتی ہیں. اپنا تجربہ بتاؤں تو میری کولیگز اب کھاڈی، نشاط لینن، سفائر، جے ڈاٹ، گل احمد کے ساتھ سایا، ست رنگی، کیسریا اور ژیلبری کی بھی فینز ہو چکی ہیں.

Leave a reply